صوبہ سیستان بلوچستان کے سرکردہ علما کا اجلاس؛ دینی مدارس کے استقلال اور عوامی ہونے پر تاکید

صوبہ سیستان بلوچستان کے سرکردہ علما کا اجلاس؛ دینی مدارس کے استقلال اور عوامی ہونے پر تاکید


زاہدان (سنی آن لائن) دارالعلوم زاہدان نے ‘شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان’ کے اجلاس کی میزبانی کی جہاں درجنوں سرکردہ علمائے کرام جامع مسجد مکی میں اکیس دسمبر دوہزار بائیس کو اکٹھے ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر علما نے بیان دیتے ہوئے ملکی اور صوبائی حالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

علما عوام کے ساتھ رہیں
مولانا عبدالحمید، صدر شورائے مدارس اہل سنت اور صدر و شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم زاہدان نے مذکورہ جلسے میں علما سے خطاب کرتے ہوئے استقلال اور اصحاب اقتدار سے وابستہ نہ رہنے پر زور دیا۔ ان کے بیان کے سب سے اہم نکات درجِ ذیل ہیں:
حالیہ مہینوں میں ملک میں بڑے پیمانے پر بے دینی کی لہر دوڑگئی تھی جس ہم سب پریشان تھے۔ یہاں تک کہ ملک گیر احتجاج شروع ہوئے اور زاہدان کے خونین جمعے کا واقعہ پیش آیا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس واقعے کے بعد بہت سارے لوگ دوبارہ دین کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ علما عوام ہی کے ساتھ رہے؛ انہوں نے زور دیا کہ عوام کی بات سنی جائے اور انہیں مارنے پیٹنے سے گریز کیا جائے۔
علما کی اصل ذمہ داری معاشرے کی رہ نمائی اور اصلاح ہے۔ جب علما عوام کے ساتھ رہیں، پھر وہ دین کی طرف راغب ہوجائیں گے۔ علما اعتدال کی راہ پر گامزن ہوجائیں، لیکن اپنی آزادی اور غیر وابستگی بھی محفوظ رکھیں۔ علما، عمائدین اور بڑوں کی قدر اور عزت ان کے استقلال میں ہے۔ علما کوشش کریں سماج کی خدمت کیا کریں اور عوام کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھیں۔
حالیہ ملک گیر احتجاجوں کے شروع میں کچھ لوگ ہمیں کہتے تھے تم بھی حصہ لے لو، لیکن ہم نے کہا ہمارے لوگ ‘سیاسی’ بھی نہیں ہیں اور یہاں کے حالات بھی خاص ہیں۔ جب زاہدان کا خونین جمعہ پیش آیا، کایا پلٹ گیا۔ ہمارے پاس ڈاکیومنٹس موجود ہیں کہ نمازیوں نے بالکل پولیس سٹیشن پر حملہ ہی نہیں کیا تھا کہ ان پر فائرنگ شروع ہوئی۔ مسلح حملے کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔ وہاں ایک اہلکار بھی قتل نہیں ہوا ہے۔ لیکن نمازیوں پر چاروں طرف سے فائرنگ ہوئی تھی۔
اس المناک حادثے سے قبل اہل سنت پر دباؤ شروع ہوا تھا۔ بڑے شہروں میں اہل سنت کے نمازخانوں پر حملے ہوئے تھے۔ مشہد کے گورنر نے اعلان کیا تھا اہل سنت کا کوئی نمازخانہ شہر میں نہیں رہنے دے گا۔ تہران میں سنی نمازیوں کو کہا گیا ہے سرکاری اجازت نامہ لے کر آئیں ورنہ نمازخانے بند ہوجائیں گے۔ جب پوچھا جاتاہے کہاں سے اجازت نامہ لے لیں؟ ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ چند برس قبل میں نے ثقافتی امور کے وزیر سے ملاقات میں کہا کہ ہمیں نمازخانوں کے لیے اجازت نامے لینے کا کہاجاتاہے۔ انہوں نے کہا ہم نے اب تک نہیں سنا ہے کہ اقامہ نماز کے لیے اجازت لینے کی ضرورت ہو۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ لوگوں کو نماز پڑھنے سے منع کرے۔
ان مسائل کی پیروی کی گئی۔ ہم نے چند خطوط سپریم لیڈر اور صدر مملکت کے نام لکھ کر بھیج دیے کہ انتہاپسندوں کو لگام لگائیں۔ لیکن افسوس ہے کہ کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی خطوط لکھے گئے جن کا کوئی جواب نہیں ملا۔

زاہدان میں اہلکاروں نے نہیں حکومت نے عوام کو شہید کردیا
جو واقعہ زاہدان میں پیش آیا، میرے عقیدے میں ہمارے لوگوں کو سکیورٹی اہلکاروں نے نہیں بلکہ حکومت اور ریاست نے انہیں مارا۔جب حکومت اہل سنت کے بارے میں امتیازی پالیسیاں اختیار کرتی ہے، مسلح اداروں اور عدلیہ سمیت دیگر اہم اداروں اور عہدوں سے انہیں دور رکھتی ہے، ظاہرسی بات ہے سکیورٹی فورسز بڑی بے دردی سے انہیں قتل کرڈالیں گے۔ اگر مسلح اداروں میں سب قومیتوں اور مسالک کے لوگ موجود ہوتے، کسی کو جرات نہ ہوتی کہ اس طرح عوام کو مارے۔
زاہدان میں 1993ء کو بھی جامع مسجد مکی میں لوگوں پر فائرنگ کرکے تیرہ افراد کو شہید کردیا گیا۔ میرے خیال میں اگر امتیازی سلوک نہ ہوتایہ المناک واقعات بھی پیش نہ آتے۔ تین ماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔ دعویٰ کیا جاتاہے کہ کچھ افراد اس کیس میں طلب یا گرفتار ہوئے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے سب ایرانی ہم وطنوں کے مسائل پر توجہ دی جائے۔
امتیازی سلوک اس ملک کا بڑا مسئلہ ہے؛ اہل سنت کے علاوہ دیگر قومیتیں اور مسالک بھی مسائل سے دوچار ہیں۔ میرٹ پر مناصب تقسیم نہ ہوئے، ایک مخصوص گروپ کو صرف مناصب اور عہدے ملے۔ کمزور حکام اور نالائق ذمہ داران اسی سوچ کے نتائج ہیں۔ قابل افراد سے کام لیاجاتا یہ ملک اور نظام کے مفاد میں ہوتا۔ وقت آپہنچاہے کہ ملک میں تبدیلیاں آجائیں۔ جب تک تبدیلی نہیں آئے گی، قوم راضی نہیں ہوجائے گی۔

سنی علما کا بیان
سنی آن لائن نے صوبہ سیستان بلوچستان کے علمائے کرام کا مشترکہ بیان شائع کیا ہے جس کے مطابق علما نے ایک بار پھر زاہدان اور خاش میں عوام کے قتل عام میں ملوث حکام کی گرفتاری اور ٹرائل پر زور دیاہے۔ بیان کے مطابق ان واقعات چارسو سے زائد افراد شہید و زخمی ہوئے ہیں۔
بیان کے مطابق، سنی علما نے بعض علمائے کرام اور قبائلی عمائدین کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کی ہے۔ جیلوں میں قیدیوں پر ٹارچر اور جبری اعتراف لینے کے لیے انہیں تشدد کا نشانہ بناناشریعت اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔علما، سیاسی کارکنوں، صحافیوں، ڈاکٹروں، وکلا، فن کاروں، طلبہ، اساتذہ، کھلاڑیوں اور خواتین کو گرفتار کرنے سے صرف عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہوتاہے۔
بڑے پیمانے پر پھانسی کی سزا دینا اسلامی رحمت اور نبی کریمﷺ کی سیرت کے خلاف ہے۔ شیعہ علما اور مراجع کی خاموشی ان حالات میں افسوسناک ہے۔ علما کو چاہیے ہمیشہ عوام کے ساتھ رہیں۔موجودہ حالات میں بات چیت اور سب سیاسی قیدیوں کی رہائی اور پرتشدد رویوں کو ختم کرنے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں