خطیب اہل سنت زاہدان نے سولہ دسمبر دوہزار بائیس کے بیان میں حالیہ احتجاجوں میں گرفتار ہونے والے بعض قیدیوں کی سخت سزاؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علمائے اہل سنت سمیت سب قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ پیش کیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطبہ جمعہ میں ہزاروں زاہدانی نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: خیرخواہی سے کہتاہوں حالیہ احتجاجی تحریک میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو رہا کریں اور ان پر سختی نہ کریں۔ ان کی اکثریت نوجوان اور کم سن لڑکے ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو رہا کریں، انہیں محارب نہ کہیں؛ اگر محارب بھی ہوں، انہیں پھانسی کی سزا نہ دلوائیں۔
انہوں نے کہا: سب سے بہترین برداشت قرآن سے یہی ہے کہ جس نے کسی کو قتل نہیں کیا ہے، اسے موت کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ حدیث کے مطابق، جس دین میں عفو و بخشش اور درگذر نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔
سنی علمائے کرام سے بدسلوکی پر تنقید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: حالیہ دنوں کرد علاقوں سے دو بڑے اور ممتاز عالم دین کو سکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا ہے۔ ماموستا سیف اللہ حسینی جو صوبہ کرمانشاہ کے شہر جوانرود کے ممتاز عالم دین ہیں، گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ سکیورٹی اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوکر تشدد سے کام لیا ہے۔ ماموستا خضرنژاد بھی بڑے عالم دین ہیں جنہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان علما نے صرف تنقید کی ہے اور کچھ باتیں کی ہیں۔ کسی کو بات کرنے سے منع نہ کریں؛ اچھی باتیں قبول کریں ۔ مولانا کوہی دو سالوں سے قید میں ہیں اور قانونی طورپر انہیں رہا کرنا چاہیے۔ ہمارا مطالبہ ہے سب علما کو رہا کریں۔ مولانا فضل الرحمن کوہی نے صرف تنقید کی تھی اور اب ان سے کہیں زیادہ سخت تنقید ہورہی ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: مولانا عبدالغفار نقشبندی نے بھی صرف تنقید کی ہے اور باتیں کرنے کے علاوہ انہوں نے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ امید ہے ان کے لیے کوئی مسئلہ پیش نہ آئے ۔ ہماری بھی نصیحت یہی ہے کہ خیرخواہی کے جذبے کے تحت بات کرنی چاہیے۔
انہوں نے فلاحی کاموں میں پیش پیش ایک ڈاکٹر کے لیے پھانسی کی سزا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ڈاکٹر حمید قرہ حسنلو جو ماہر ڈاکٹر ہیں، ان پر محاربہ کا الزام لگایا گیا ہے جو چند دیگر افراد کے ساتھ ایک بسیجی اہلکار کے قتل کے الزام میں انہیں پھانسی کی سزا دی جاچکی ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن خبر ہے جس سے ڈاکٹروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فلاحی کاموں میں سرگرم اس ڈاکٹر کو اہل خانہ سمیت رہا کریں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کو معطل نہ کریں۔ اگر طلبہ و طالبات کوئی بات کہہ کر احتجاج کرتے ہیں، انہیں بات کرنے دیں۔ لیکن انہیں علم حاصل کرنے سے نہ روکیں۔
قانون کمزور اور بے دفاع لوگوں کے لیے ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے قانون سے امتیازی رویہ کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: تنگ نظری کی وجہ سے ملک میں رکاوٹیں کھڑی ہوچکی ہیں۔ ایران ایک بڑا ملک ہے اور اس میں ہر قسم کے مذہب، مسلک، رجحانات اور لسانی برادری رہتے ہیں۔ ان سب کو آزادی ملنی چاہیے۔ آئین نے انہیں آزادی دی ہے، لیکن افسوس ہے کہ قانون سے فرار ملک میں عام ہوچکاہے۔ بہت سارے صدور مملکت نے آئین نافذ کرنے کا وعدہ کیا اور اسی لیے عوام نے انہیں ووٹ دیا، مگر جب وہ بر سرِ اقتدار آئے، ان سے کچھ نہ بنا۔
انہوں نے مزید کہا: ان سب مسائل کی اصل وجہ امتیازی رویہ ہے؛ جس کے پاس قوت ہے وہ خود کو قانون کا پابند نہیں سمجھتا۔ قانون صرف کمزوروں اور بے دفاع لوگوں کے لیے ہے۔ لیکن اصحابِ اقتدار نے قانون سے گریز کی راہ اختیار کیا ہے۔ قانون کے مطابق سب مسالک اور افکار کو آزادی حاصل ہے۔ یہ قوم کا مطالبہ ہے کہ سب قومیتوں، مسالک اور مذاہب کو آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ ایرانیوں میں فرق کرنا اور امتیازی سلوک گناہ ہے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: کچھ لوگ اعداد و شمار پیش کرتے ہیں کہ اتنے ضلعی گورنر اور تحصیلدار اہل سنت ہیں، لیکن وہ مسلح افواج کے بارے میں کیوں خاموش ہیں؟ ان میں کتنے سنی شہری بھرتی ہوئے ہیں؟ حقایق کو کیوں انکار کرتے ہو؟ صوبوں کے مراکز میں اور دارالحکومت میں کتنے سنی شہریوں کو عہدے ملے ہیں؟
مشکلات کے بعدعوام متحد ہوچکے ہیں
مولانا عبدالحمید نے ملک کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: موجودہ حالات میں عوام میں یکجہتی پائی جاتی ہے جو بہت پسندیدہ ہے۔ اس سے قبل ایرانی عوام ایک دوسرے کے مسائل سے لاتعلق تھے یا ان کی ہمدلی کمزور تھی، اب پرزور ہوچکی ہے۔ تہران جیسے بڑے شہروں کے رہنے والے دورافتادہ اور سرحدی علاقوں کے عوام سے اب زیادہ محبت کرتے ہیں اور ان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگ جب ایک دوسرے کے لباس کو دیکھتے ہیں، فخر کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: کئی عرصے سے کہا جاتا تھا کہ سرکاری میڈیا عوام کے لباس اور ثقافت کو دیگر ایرانیوں سے تعارف کروائے۔ ماضی میں کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ہمارا لباس کیسا ہوتاہے اور ہمیں افغان بھائی یا پاکستانی بھائی سمجھتے تھے۔ لیکن اب ایسے حالات پیش آچکے ہیں کہ لوگ سڑکوں پر ایک دوسرے کو خوش آمد کہتے ہیں اور محبت کرتے ہیں۔ یہ یکجہتی بہت ہی اچھی چیز ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے منعقد سالانہ ہفتہ وحدت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ماضی میں ہفتہ وحدت میں گرماگرمی اور رونق دیکھی جاتی تھی، لیکن پھر یہ ایسا ٹھنڈا پڑگیا کہ بین الاقوامی مہمان کانفرنس میں شرکت نہیں کرتے ہیں اور اندرون ملک سے بھی لوگ سست ہوچکے ہیں اور اس کانفرنس سے دور رہتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اتحاد کا نعرہ بلند ہورہا ہے لیکن عمل سے کوئی خبر نہیں ہے۔ جب اتحاد نعروں کی حد تک محدود ہو، اس کا میدان مختصر ہوتاہے۔ لیکن قلبی وحدت گہری ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مختلف اداروں اور سرکاری محکموں میں اتحاد کمزور رہاہے۔ سب دعوے کرتے کہ اتحاد ان کی سٹریٹجی ہے، لیکن حقیقت کچھ اور تھی اور اتحاد کے نعروں سے صرف سیاسی فائدہ اٹھایا گیا۔اگر کسی کے لیے اتحاد اہم ہوتا، تو اس کے پاس اختیار ہی نہ ہوتا۔ کہیں نماز پڑھنے پر پابندی عائد ہوتی یا ہماری مقدسات کی توہین پر ہم احتجاج کرتے، مجمع التقریب سے جب ہم گلہ کرتے تھے، تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری بات کوئی نہیں مانتا۔
ممتاز عالم دین نے کہا: آج اگر ایرانی قوم متحد ہوچکی ہے اور ان میں یکجہتی پائی جاتی ہے، اس کی وجہ ان کے مشترکہ مسائل ہیں۔ سب ایرانی مہنگائی، بے روزگاری اور اس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ان مسائل نے ایرانی قوم کو ایک دوسرے سے قریب کیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے حامی بن چکے ہیں۔ سب ایرانی باہمی مشورت اور گفت و شنید سے ایسی راہیں اختیار کریں کہ دنیا کے عوام سے تعامل کریں اور آپس میں مزید اتحاد پیدا کریں۔ جب امتیازی سلوک اور عدم مساوات نہ ہو اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے، پھر حقیقی اتحاد پیدا ہوجاتاہے۔ بہت سارے ایرانی آزادانہ طورپر عبادت نہیں کرسکتے ہیں اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے سے عاجز ہوچکے ہیں۔
کرنسی کی بے قدری نے عوام کو ذہنی کوفت سے دوچار کیا ہے
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ایرانی عوام دین کے دشمن نہیں ہیں، وہ کسی غیرملکی طاقت یا ملک کے ایجنٹ بھی نہیں؛ وہ ایرانی اور اسی ملک کے باشندے ہیں۔ حالیہ احتجاجوں کی وجہ قوم کے مسائل ہیں۔ایک ڈالر کی قیمت چالیس ہزار تومان ہونے والی ہے۔ دنیا میں ہماری کرنسی کی قدر بری طرح گرچکی ہے اور اس سے لوگ ذہنی کوفت کا شکار ہیں۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ملک میں ہر قسم کے وسائل اور کان موجود ہیں اور ملک کا شمار امیر ملکوں میں ہوتاہے، لیکن وہ بھوکے ہیں اور پیٹ بھرنے کے لیے انہیں مشکلات کا سامنا ہے، پھر وہ تشویش کا شکار ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جب ایران کے معزز شہری خود کو دباؤ میں دیکھتے ہیں اور ضروری آزادی اور حقوق سے محروم ہیں، مختلف قومیتوں اور مسالک کے قابل افراد کی جگہ کمزور لوگ ملک چلارہے ہیں، پھر وہ پریشان ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی بھاگ دوڑ قابل اور اہلیت رکھنے والوں کے پاس ہوتی، ملک کا حال یہ نہ ہوتا۔ انتخابات ہیں، لیکن ان سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتاہے۔ جب لوگ الیکشنز میں حصہ لیتے ہیں، لیکن ان کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں ہوتی ہے اور ملک کے حالات جوں کے توں باقی رہتے ہیں، دنیا میں ملک اکیلا ہوتاجارہاہے اور انسانی حقوق کونسل میں اس کی مذمت ہوتی ہے، پھر سب شہری پریشان ہوتے ہیں۔ ہمارا ملک کیوں دنیا کے مختلف ممالک سے مناسب تعلقات سے محروم ہے؟ ہمیں دوستوں اور دشمنوں سے تعلقات قائم کرکے مفادات یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام رواداری، عقلمندی اور تعامل کا دین ہے۔ اسلام انسان اور اخلاق بنانے کے لیے آیاہے۔
انہوں نے مزید کہا: جب ہم ان مسائل میں کامیاب نہیں ہوتے، پھر عوام ناراض ہوجائیں گے۔ احتجاجوں میں دیکھیں کیا مسائل پیش ہوتے ہیں۔ بانی انقلاب ہی کی باتیں ہیں کہ انہوں نے سابق شاہ سے کہا ایرانی عوام اچھے لوگ ہیں؛ یہ لوگ کیوں تم سے ناراض ہیں؟ ایرانی عوام آزادی کی کمی سے نالاں ہیں؛ وہ مشرق و مغرب کی غلامی نہیں چاہتے ہیں اور وہ ناراض ہیں کہ ان کی دولت دیگر جگہوں پر کیوں خرچ ہوتاہے۔ یہ باتیں بانی انقلاب ہی کی ہیں؛ آج ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ پریشان ہیں۔
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے کہا: ان مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ہم نے بارہا اس منبر سے آواز اٹھائی کہ داخلہ و خارجہ پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں اور ان میں تبدیلی و اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکام اپنے ہی ملک آباد کرنے پر توجہ دیں۔ اپنی قوم کے لیے سوچیں۔ یہ قوم اگر ہاتھ سے گئی، پوری دنیا بھی تم خوش ہو، پھر بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جب قوم ناراض ہو، حکومت چلانا ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا: میں حکام اور عوام کا خیرخواہ ہوں اور سب کی کامیابی چاہتاہوں۔ جو لوگ تین مہینوں سے ملک کے اندر اور باہر احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں، ہمارے ہی عزیز ہیں۔ یہ دیکھیں کہ کتنے ماہرین ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ ایرانی عوام کے لیے ایران ہی بہترین جگہ ہے۔ یہ جہاں بھی ہوں، اپنے وطن ہی کے لیے سوچتے ہیں اور اس کی خوشحالی کے لیے محنت کرتے ہیں۔ ہماری تمنا ہے یہ سب واپس آکر اپنا ملک بنائیں۔
بانی انقلاب کی باتیں کہنے سے بھی لوگ ناراض ہوتے ہیں
مولانا عبدالحمید نے یاددہانی کرائی: انتخابات میں کچھ وعدے دیے جاتے ہیں، بعد میں وعدے پورے کرنے اپنی جگہ، حتی کہ منتخب افراد (صدر) سے ملاقات کرنا بھی مشکل ہوجاتاہے۔ حالیہ صدارتی الیکشن میں وعدے دیے جاتے ہیں اور بعد میں کہا گیا کوئی ہماری نہیں مانتا۔ میں کئی بار تہران جاکر مسائل کے حل کی کوشش کرچکاہوں، لیکن کوئی بات نہ بنی۔ ایسا کیوں ہے؟
انہوں نے کہا: عوام کے مسائل کو ان ہی کی زبانی سن لیں۔ واحد راستہ یہی ہے کہ قوم کی چاہت کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں۔ بانی انقلاب کے حوالے سے کہتاہوں یہ قوم جو چاہے، وہی درست ہے۔ ان کی باتیں کہنے سے شاید کچھ لوگ ناراض ہوجائیں۔ تم غیرملکی طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں، لیکن عوام کے سامنے تمہیں سرنڈر کرنا پڑے گا۔ یہ قوم تمہارے محسن ہیں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: علما ہمیشہ عوامی ہی رہے ہیں اور عوام کے ساتھ اور ان کے لیے آنسو بہاچکے ہیں۔ اب دیکھیں عوام کیوں رورہے ہیں؟
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالواحد ریگی کی شہادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: مولانا عبدالواحد ایک خیرخواہ اور مصالحت کے لیے دن رات محنت کرنے والے ممتاز عالم دین تھے۔ ان کی شہادت کے واقعے سے ہم سب متاثر ہوئے۔ اس خطے میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ علما کو نشانہ بنایاجائے۔ اگر کسی کو اختلاف بھی ہوتا، تو علمائے کرام، عمائدین، تعلیم یافتہ طبقہ اور خواتین کو نشانہ بنانے سے گریز کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس جلیل القدر عالم دین کی شہادت قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرمائے۔
آپ کی رائے