مولانا عبدالحمید:

فوری طورپررفرنڈم منعقد کراکر جمہور کے مطالبات مان لیں

فوری طورپررفرنڈم منعقد کراکر جمہور کے مطالبات مان لیں

اہل سنت ایران کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما نے چار نومبر دوہزار بائیس کے خطبہ جمعہ میں بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں عوامی مطالبات کے پیش نظر پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے فوری رفرنڈم کا مطالبہ پیش کرتے ہوئے قم کے دینی مدارس اور تہران میں بیٹھے اعلیٰ حکام کو کہا ہے پچاس دن سے سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کی بات سن لیں۔

مولانا عبدالحمید نے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں نمازِ جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا: ایرانی قوم نے 1979ء ایک حکومت کا تختہ الٹ دیا اور علما اس انقلابی مشن میں پیش پیش تھے۔ ایرانی قوم اپنے انقلاب کی وجہ آزادی کا فقدان بتاتی؛ آزادی انسان کے لیے کسی بھی چیز سے بڑھ کر اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اناسی میں قوم نے آزادی اور استقلال کے لیے انقلاب کیا؛ لوگ کہتے تھے ملک کا اثاثہ کہیں اور خرچ ہوتاہے اور یہ ایرانی قوم ہی پر کیوں خرچ نہ ہو! یہ باتیں انقلاب کے زمانے میں بتائی جاتی تھیں اور لوگ شکایت کرتے کہ انہیں بات کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا ہم مسلمان ہیں؛ کیوں نہ ایک اسلامی حکومت کا تجربہ کریں۔

سب سے اعلیٰ حاکم بھی اپنی قانونی حیثیت عوام سے لیتاہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے ملک میں قائم سیاسی نظام کی قانونی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: قوم نے آزادی کے لیے قربانیاں دیں؛ خواتین و حضرات، طلبہ اور تاجر برادری سمیت سب لوگ سڑکوں پر نکلے اور آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور بہت سارے لوگ جیل گئے۔ قوم ہی نے انقلاب کو کامیاب کرایا اور ‘اسلامی جمہوریہ’ ایران کو اسی قوم نے ووٹ دیا۔ اس نظام کی قانونی حیثیت عوام کے ووٹوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس وقت لوگ سمجھتے تھے نبی کریم ﷺ کا دور لوٹ آئے گا اور ایران میں عدل و مساوات کا قیام ہوگا۔ اہل سنت کہتے تھے خلفائے راشدین کا سنہری دور آئے گا اور شیعہ و سنی کا خیال تھا حضرت علی اور علوی عدالت کا دور آئے گا۔
انہوں نے کہا: سب حکام براہِ راست یا بالواسطہ عوام ہی کے انتخاب اور ووٹ سے قانونی حاکم بن جاتے ہیں۔ صدر مملکت، ارکان پارلیمنٹ اور خبرگان کے ارکان براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوجاتے ہیں۔ سپریم لیڈر بھی اسی قوم سے اپنی قانونی حیثیت حاصل کرتے ہیں۔ جمہوری نظام میں عوام بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور سب لوگ اس نظام میں حصہ دار ہیں۔ افسوس ہے جس طرح لوگ سمجھتے تھے کہ امتیازی رویے ختم ہوجاتے ہیں اور سب لوگ عادلانہ طورپر اپنے حقوق حاصل کریں گے، ایسا نہیں ہوا۔

بہت ساری خواتین مردوں سے بڑھ کر ماہر اور قابل ہیں
مولانا عبدالحمید نے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ایک بڑا مسئلہ خواتین کے خلاف امتیازی رویے اور پالیسیاں ہیں۔ ملک میں ان کے خلاف امتیازی سلوک پایاجاتاہے۔ یہ سب کچھ کہنا ہوگا تاکہ سب کو پتہ چلے مسئلہ کہاں ہے۔ مختلف لسانی، مذہبی اور مسلکی اقلیتوں کو نظرانداز کرکے امتیازی رویہ اختیار کیا جاچکاہے۔ ہم نے ہمیشہ ان رویوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے کہ اسلام میں امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: آج کل سب سے زیادہ احتجاج خواتین کی طرف سے دیکھنے میں آتاہے جو امتیازی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ خواتین یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں اور ان بعض ایسی بھی ہیں جو مردوں سے بڑھ کر ماہر ہیں اور قابلیت رکھتی ہیں۔ ایسی خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرکے ان سے کام لیاجاسکتاہے۔ کابینہ میں انہیں شامل کرنے سے تمہاری خوش نامی ہوگی اور یہ نظام اور حکومت کے مفاد میں ہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: آج اگر بعض خواتین دوپٹہ اتار کر احتجاجا اسے جلادیتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کون لوگ ہیں اور کیا مسائل ہیں جن کی وجہ سے خواتین اس قدر غصے کا مظاہرہ کررہی ہیں؟
مولانا عبدالحمید نے ملک میں دین بے زاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کو حکام کے رویوں کا نتیجہ یاد کرتے ہوئے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے ملک میں دین بے زاری کا رجحان بڑھتا ہی جارہاہے۔ خواتین پردے سے نفرت کرتی ہیں اور یہ سب ہمارے غلط رویوں اور اعمال کے نتائج ہیں۔ دین سے مزید نفرت پیدا کرنے مت دیں۔ کوئی چارہ نکالیں۔ اب تک تم نے ایرانیوں کی رائے معلوم نہیں کی ہے، اب ان سے پوچھ لیں، ان کے ساتھ مشورہ کریں۔ ہم صرف اپنے ملک کی بھلائی چاہتے ہیں۔

شیعہ و سنی دونوں کو زبردستی جنت نہیں بھیجا جاسکتا
ممتاز عالم دین نے کہا: یہ حکمت کے خلاف تھا کہ اخلاقی پولیس لوگوں کو زبردستی پردہ کرنے کا حکم دے۔ اگر حکومت خواتین کے حوالے سے نرمی اور مزید مہربانی کا مظاہرہ کرتی اور انہیں برابر کے حقوق دیتی، کسی پولیس دستے کو پردہ کرانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ خواتین از خود پردے کا خیال رکھتیں۔ جب تم نے خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کررکھاہے اور زبردستی سے لوگوں کو جنت بھیجنا چاہتے ہو، اچھی طرح سمجھ لیں کہ شیعہ ہو یا سنی، کوئی زورِ بازو سے جنت جانا نہیں چاہتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: محبت اور پیار سے لوگوں کو اپنے ساتھ کرسکتے ہو۔ تلوار کے زور پر کوئی تمہارے ساتھ جنت نہیں چلے گا۔ یہ غلط بات ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر دنیا میں پھیل گیا۔ ایرانیوں نے بھی تلوار کے زور پر اسلام قبول نہیں کیا ہے؛ بلکہ اخلاق اور محبت نے انہیں اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ مسلمانوں کے عدل و انصاف پسندی نے دنیا کو ان کے گرویدہ بنایا۔ یہ لوگ نہ زورِ شمشیر سے مسلمان ہوئے، نہ ہی زورِ شمشیر سے جنت جانا چاہتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے ہر قسم کے امتیازی سلوک کی نفی کرتے ہوئے کہا: اصلاح پسندوں کے دور میں اہل سنت ایران یکصدا ہوکر انہیں ووٹ دیا اور بہت سارے اہل تشیع نے بھی ان کے مدنظر امیدوار کو ووٹ دیا۔ ملک میں مشہور ہے جس صدارتی امیدوار کو اہل سنت ووٹ دیں، وہ کامیاب ہوجائے گا؛ چونکہ وہ متحد ہوکر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں تاکہ اپنے مطالبات منواسکیں۔ اس دوران بارہا آواز اٹھائی گئی کہ خواتین، لسانی اور مذہبی برادریوں کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں جو امتیازی سلوک کا شکار ہیں؛ اسلام میں امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پھر یہ جانبدارانہ پالیسیاں کہاں سے آئیں؟
انہوں نے مزید کہا: میں موجودہ صدر کے پاس گیاہوں اور ان پر میں نے واضح کیا کہ اگر ایران کی عزت چاہتے ہو، خواتین اور لسانی برادریوں کے افراد کو اپنی حکومت کا حصہ بنادو۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکام کسی کی بات سنتے نہیں اور ذاتی رجحانات کی بنا پر عمل کرتے ہیں۔ لوگوں کی بات سن کر مزید جانی و مالی نقصانات سے ملک کو بچائیں۔
مولانا نے کہا: ہمارے ملک کے موجودہ مسائل داخلی ہیں اور انہیں بیرونی قوتوں کی سازشوں کا نتیجہ قراردینا غلط ہے۔
انہوں نے خواتین کی عزت محفوظ رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا: اگر ہمارے علاقے میں ایک عجیب رواج ہے کہ اگرکوئی کسی قاتل کو مارنا چاہے، لیکن اس کے ساتھ کوئی خاتون ہو، وہ اپنا سر جھکا کر چلاجاتاہے؛ خواتین کی اتنی بڑی عزت ہے ہمارے یہاں۔ یہ خواتین تمہاری بہنیں، بیٹیاں اور مائیں ہیں؛ اگر انہوں نے تمہیں مارا بھی تم ہاتھ مت اٹھائیں اور دفاع نہ کریں۔ اگر پولیس کو انہوں نے مارا پیٹا، پھر پولیس لاٹھی چارج سے بچنا چاہیے۔ کس شریعت اور قانون نے پولیس کو حق دیاہے کہ خواتین کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر انہیں ویگنوں میں ڈالیں؟

طالبان نے کس شرعی قانون کے تحت خواتین کو تعلیم سے روکاہے؟
خطیب اہل سنت زاہدان نے افغان طالبان کی خواتین کی تعلیم کے بارے میں پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: میں نے انٹرویو دیا تھا کہ آج کے طالبان بیس سال پہلے کے طالبان سے مختلف ہیں اور ان میں تبدیلی آئی ہے؛ اس پر بہت سارے لوگ سیخ پا ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں واقعی کچھ تبدیلی آئی ہے۔ لیکن جو بات بہت پریشان کن ہے وہ خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کی کوششیں ہیں۔ سیکنڈری سکولز اور جامعات کو خواتین کے لیے کھول دینا چاہیے۔ کس قانون اور شریعت نے خواتین کی تعلیم سے منع کیا ہے؟ یہ کچھ تنگ نظر لوگوں کی رائے ہے۔
طالبان رہ نماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: خدا را! ایسا مت کریں۔ سکولز اور کالجز کو خواتین کے لیے کھول دیں۔ میری رائے میں مردوں سے پہلے، خواتین کے لیے یونیورسٹیز کے دروازے کھول دیں۔ خواتین میں کافی ٹیلنٹ موجود ہے۔ وہ علم و دانش کے زیور سے آراستہ ہونا چاہتی ہیں۔ آپ نے کس شرعی قانون کی بنا پر خواتین کو تعلیم سے روکاہے؟ کس نے کہا ہے خواتین کو تعلیم سے محروم رکھیں؟
مولانا عبدالحمید نے کہا: بعض لوگوں نے مجھ پر تنقید کی ہے کہ میں نے اس حوالے سے طالبان کو کچھ نہیں کہا ہے؛ ایسا نہیں ہے۔ اب میں منبر پر اس بات کا اعلان کیا، لیکن اس سے قبل بھی میں نے طالبان رہ نماؤں کو پیغام دیا ہے کہ خواتین کی تعلیم کا راستہ بند نہ کریں۔ ہم نے ان پر واضح کیا ہے کہ عالم اسلام کے علما اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ خواتین کو تعلیم سے روکیں۔ یہ طالبان کی شرعی ذمہ داری ہے کہ خواتین کے حقوق کا خیال رکھیں۔

بڑے پیمانے پر پھانسی کی سزاؤں کی بنیاد کیا ہے؟
نامور عالم دین نے ایران میں بڑے پیمانے پر قیدیوں کو پھانسی کی سزا دینے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا: شاید کچھ حکام ملکی مسائل کا انکار کریں، لیکن وہ جو عوام کے درمیان رہتے ہیں، ان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بیرونی طاقتیں ہمیشہ لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوششیں کرتی چلی آرہی ہیں، لیکن موجودہ احتجاج ان اشتعال انگیزیوں کے نتائج نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: آج قوم کی اکثریت ناراض ہے۔ عدلیہ کو کئی بار چلاکر کہا گیا لوگوں کو بڑے پیمانے پر پھانسی کی سزائیں مت دلوائیں۔ ایسی پھانسیاں نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے دور میں نہیں تھے۔ تم نے یہ سزائیں کہاں سے لائیں؟ ان پھانسیوں کے نقصانات ملک اور اسلام کو پہنچتے ہیں۔
انہوں نے لوگوں کے جبری اعترافی بیانات کو ٹی وی پر شائع کرنے کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: جبری اعتراف کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے اور ناقابل قبول ہے۔ ایسے اعترافی بیانات جو لوگوں کو ڈرادھمکا کر یا لالچ دے کر لیاجاتاہے، معاشرے میں مزید انارکی پیدا کرنے کے سبب بنتے ہیں۔ یہ دیکھ لیں عوامی جذبات کو کیا چیز آرام کرسکتی ہے، انہیں مزید اشتعال مت دلائیں۔ سیاسی احتجاجیوں کو جیلوں میں مت ڈالیں۔سیاسی سرگرمیوں میں مصروف خواتین کو جیلوں میں ڈالنے سے مجھے سخت صدمہ ہواہے۔ انہیں بات کرنے دیں؛ اگر ہمارا کام ٹھیک ہو، ان کی باتوں سے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

قم کے علما و مدارس عوام کی آواز سن لیں
مولانا عبدالحمید نے موجودہ احتجاجی مظاہروں کو ملک میں متعدد عوامی مطالبات کا نتیجہ یاد کیا جنہیں حکام نے مناسب جواب نہیں دیا ہے۔
انہوں نے کہا: قوم کی اکثریت، سوائے ایک مخصوص طبقے کی، امتیازی سلوک اور بے عزتی کے احساس کی شکار ہے۔ لوگ بھوکے ہیں۔ قومی کرنسی کی قدر بری طرح گرچکی ہے اور لوگ مہنگائی کا شکار ہیں۔ کون ان مسائل کے ساتھ زندگی کا پہیہ چلاسکتاہے؟ قم کے مدارس والے قوم کی آواز سن لیں۔ حکام بھی لوگوں کی چیخ و پکار سن لیں۔ قید و بند اور قتل کرنے سے یہ لوگ خاموش نہیں ہوجائیں گے۔ پچاس دنوں سے لوگ احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان لوگوں نے خون دیکھاہے اور ان کے عزیز مارے گئے ہیں۔ تم ان کو سڑکوں سے نہیں نکال سکتے ہو۔

ایک دن آئے گا جب بہت دیر ہوچکی ہے
صدر دارالعلوم زاہدان نے نسلوں کی تبدیلی اور موجودہ پالیسیوں میں ڈیڈلاک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں ایک خیرخواہ کی حیثیت سے بات کرتاہوں۔ ماضی میں تمہاری مادی پیش کش اور عہدوں کو مسترد کرچکاہوں اور آئندہ بھی اگر پورا ایران مجھے دیدیں، میں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ہمارے لیے یہی طالب علمی بہتر ہے۔ میں تمہیں یقین دلاتاہوں یہ قوم پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس قوم کے ساتھ پرتشدد رویہ چھوڑدیں۔
انہوں نے مزید کہا: اکثر لوگ ناراض ہیں اور تمہاری قانونی حیثیت ان ہی لوگوں کی مرہونِ منت ہے۔ اگر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو، پھر بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں فوری طورپر رفرنڈم منعقد کرائیں۔ ہم سب ایرانی ہیں اور نقصان ہمارا ہی ہوتاہے۔ ہمارا واحد مطالبہ یہی ہے کہ پوری قوم کے مسائل حل ہوجائیں۔ چند گھنٹوں میں پورے ملک کے مقتولین کے برابر صرف زاہدان میں لوگ شہید ہوئے۔ ملک کو اس ڈیڈلاک سے نکالنا چاہیے۔ رفرنڈم منعقد کراکر عوام کی مدنظر تبدیلی کو مان لیں۔ موجودہ پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ میں نے خیرخواہی کے جذبہ کے تحت پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ ایک ایسا دن آئے گا جب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: موجودہ آئین تینتالیس سال قبل منظور ہوچکاہے۔ جنہوں نے اس قانون کو لکھاہے، وہ جاچکے ہیں اور ایک نئی نسل آگئی ہے۔ موجودہ آئین کو بھی اپڈیٹ کرنا چاہیے۔ موجودہ آئین بھی اچھی طرح نافذ نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا: ہم نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ایرانی شہری خود بھوکے ہیں اور ان کی دولت ملک سے باہر خرچ نہ کریں۔ قومی دولت عوام ہی پر خرچ ہونی چاہیے۔ مختلف محکموں اور اداروں میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور چوریاں ہوتی ہیں۔ ایرانی قوم کی دولت لوٹی جارہی ہے۔ یہ لوگ شاباش کے قابل ہیں کہ انہوں نے صبر سے کام لیا ہے۔ اب جبکہ ان کی آواز بلند ہوچکی ہے، کوئی تدبیر کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہور کے مطالبات کو مان لینا چاہیے۔

سخت فلٹرز کی وجہ سے قابل لوگ صدر مملکت نہیں بن سکتے ہیں
مولانا عبدالحمید نے قابل اور مستعد لوگوں کو اداروں سے دور رکھنے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: انقلاب سے پہلے کہا جاتاتھا ایران ایک امیر ملک ہے، اس قدر دولت کے باوجود عوام کیوں بھوکے ہیں۔ ایران آج بھی وہی مالدار و امیر ملک ہے، لیکن اس کے لوگ غربت کا شکار ہیں۔ عوام کی شکایت یہی ہے اور وہ خود کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ جب قابل اور اہلیت رکھنے والی شخصیات کو تم مسترد کرتے ہوتو ملک مسائل سے دوچار ہوتاہے۔ اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا، لیکن ماہر ہے اور اپنے کام میں ماسٹرمائند ہے، اس کی صلاحیتوں سے کام لینے میں کیا حرج ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اور ملکی و صوبائی عہدے بھی ایک مخصوص طبقے سے منتخب ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ملک فوجیوں اور سکیورٹی حکام کے حوالے ہوچکاہے۔ ان کی ذمہ داریاں اور مہارت کچھ اور ہے؛ ملک کو سیاسی رجال کی ضرورت ہے جو داخلی اور خارجی امور میں ماہر ہوں۔ ماسٹرمائنڈز سب ملک سے فرار ہورہے ہیں۔قومی اثاثوں سے تربیت پانے والے ماہرین کو ملک ہی کی خدمت کرنی چاہیے؛ لیکن حالات کا رخ کچھ اس طرف گیا ہے کہ یہ لوگ ملک چھوڑرہے ہیں۔ دایرہ تنگ نہ رکھیں اور امتیازی رویوں کو خاتمہ دیں۔ لیکن یہ دائرہ بڑھتاہی گیا یہاں تک کہ اب شیعہ برادری کو بھی امتیازی سلوک کی شکایت ہے۔

دیہ نہیں چاہتے ہیں؛ قاتلوں کو قرارِ واقعی سزا دلوائیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے آخر میں زاہدانی شہریوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: آج شہر میں کوئی اہلکار سڑکوں پر نہیں ہے، شہر کا امن تمہاری ذمہ داری ہے۔ کسی کے مال، جان اور عزت پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے۔ اگر کوئی ایسا کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ لوگوں کی جائیداد اور دوکانوں کو لوٹنا شریعت کے خلاف ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے تیس ستمبر کو زاہدان میں شہید ہونے والے افراد کے بارے میں کہا: بہت سارے شہید ہونے والے افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے؛ ہم نے ان سے مالی تعاون کے لیے ایک مخصوص اکاونٹ کھول رکھاہے۔ اسی طرح زخمیوں کے علاج کے لیے بھی اسی فنڈ سے کام لیاجائے گا۔ قیدیوں کے لیے بھی وکیل لے لیں گے۔
انہوں نے مزید کہا: کچھ حکام نے تجویز کی ہے کہ وہ دیہ دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہم نے فی الحال ماننے سے انکار کیا ہے چونکہ ہمارا مطالبہ ہے سب سے پہلے اس قتل عام کو مذمت کریں اور ہمارے لوگوں کی مظلومیت کا اعتراف کریں، پھر جن عناصر نے درجنوں افراد کو شہید یا زخمی کیا ہے، ان کا عہدہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، پھر بھی انہیں عدالت میں لاکر قرارِ واقعی سزا دلوائی جائے۔ میری رائے میں جب تک حکومت ہمارے مطالبات نہیں مانے گی، ہم دیہ نہیں لیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں