تاریخ حفاظت قرآن

تاریخ حفاظت قرآن

عہد رسالت میں حفاظت قرآن:
قرآن کریم چونکہ ایک ہی دفعہ پورا کا پورا نازل نہیں ہوا، بلکہ اس کی مختلف آیات ضرورت اور حالات کی مناسبت سے نازل کی جاتی رہی ہیں، اس لیے عہد رسالت میں یہ ممکن نہیں تھا کہ شروع ہی سے اسے کتابی شکل میں لکھ کر محفوظ کرلیا جائے چنانچہ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ زور حافظہ پر دیا گیا۔
شروع شروع میں جب وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے الفاظ کو اُسی وقت دُہرانے لگتے تھے، تا کہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں، اس پر سورہ قیامہ کی آیت میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی کہ قرآن کریم کو یاد رکھنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دُہرانے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے بھول نہیں سکیں گے، چنانچہ یہی ہوا کہ اِدھر آپ پر آیات قرآنی نازل ہوتیں اور اُدھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد ہوجاتیں، اس طرح سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک قرآن کریم کا سب سے زیادہ محفوظ گنجینہ تھا، جس میں کسی ادنیٰ غلطی یا ترمیم و تغییر کا امکان نہیں تھا، پھر آپ ﷺ مزید احتیاط کے طور پر ہر سال رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ دَور کیا، (صحیح بخاری مع فتح الباری)
پھر آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو قرآن کریم کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے، اور خود صحابہ کرام ؓ کو قرآن کریم سیکھنے اور اسے یاد رکھنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص اس معاملہ میں دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا، بعض عورتوں نے اپنے شوہروں سے سوائے اس کے کوئی مہر طلب نہیں کیا کہ وہ انہیں قرآن کریم کی تعلیم دیں گے۔
سیکڑوں صحابہؓ نے اپنے آپ کو ہر غم ماسوا سے آزاد کرکے اپنی زندگی اسی کام کے لیے وقف کردی تھی، وہ قرآن کریم کو نہ صرف یاد کرتے بلکہ راتوں کو نماز میں اسے دُہراتے رہتے تھے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص ہجرت کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے ہم انصاریوں میں سے کسی کے حوالے فرمادیتے، تا کہ وہ اسے قرآن سکھائے اور مسجد نبوی میں قرآن سیکھنے سکھانے والوں کی آوازوں کا اتنا شور ہونے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تاکید فرمانی پڑی کہ اپنی آوازیں پست کرو، تا کہ کوئی مغالطہ پیش نہ آئے۔ (منابل العرفان 234/1)
چنانچہ تھوڑی ہی مدت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی بڑی جماعت تیار ہو گئی جسے قرآن کریم از بر حفظ تھا، اس جماعت میں خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت طلحہ، حضرت سعد، حضرت ابن مسعود، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عمرو بن عاص، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت معاویہ، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن السائب، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضر ت ام سلمہ و غیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
غرض ابتدائے اسلام میں زیادہ زور حفظ قرآن پر دیا گیا، اور اس وقت کے حالات میں یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا، اس لیے کہ اس زمانے میں لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی، کتابوں کو شائع کرنے کے لیے پریس و غیرہ کے ذرائع موجود نہ تھے، اس لیے اگر صرف کہنے پر اعتماد کیا جاتا تو نہ قرآن کریم کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہوسکتی، اور نہ اُس کی قابل اعتماد حفاظت ، اس کے بجائے اللہ تعالی نے اہل عرب کو حافظے کی ایسی قوت عطا فرما دی تھی کہ ایک ایک شخص ہزاروں اشعار کا حافظ ہوتا تھا، اور معمولی معمولی دیہاتیوں کو اپنے اور اپنے خاندان ہی کے نہیں اُن کے گھوڑوں تک کے نسب نامے یاد ہوتے تھے، اس لیے قرآن کریم کی حفاظت میں اسی قوت حافظہ سے کام لیا گیا، اور اسی کے ذریعہ قرآن کریم کی آیات اور سورتیں عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئیں۔

کتابت وحی
قرآن کریم کو حفظ کرانے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا، جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ کو سخت گرمی لگتی اور آپ ﷺ کے جسم اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے، پھر جب آپ ﷺ سے یہ کیفیت ختم ہوجاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ہڈی یا (کسی اور چیز کا) ٹکڑالے کر خدمت میں حاضر ہوتا، آپ ﷺ لکھواتے رہتے، اور میں لکھتا جاتا، یہاں تک کہ جب میں لکھ کر فارغ ہوتا تو قرآن کو نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میرے ٹانگ ٹوٹنے والی ہے، اور میں کبھی چل نہیں سکوں گا، بہر حال؛ جب میں فارغ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ‘‘پڑھو’’ میں پڑھ کر سناتا، اگر اس میں کوئی فرو گذاشت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے۔ (مجمع الزوائد 156/1 بحوالہ طبرانی)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کتابت وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، جن میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت معاویہؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت خالد بن الولیدؓ، حضرت ثابت بن قیسؓ، حضرت ابان بن سعیدؓ و غیرہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے فتح الباری 18/9 اور زاد المعاد 30/1)
حضرت عثمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرمادیتے تھے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے (فتح الباری 18/9) اُس زمانے میں چونکہ عرب میں کاغذ کمیاب تھا، اس لیے یہ قرآن آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، البتہ کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ (ایضاً 11/9)
اس طرح عہد رسالتﷺ میں قرآن کریم کا ایک نسخہ تو وہ تھا جو آنحضرت ﷺ نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا، اگرچہ وہ مرتب کتاب کی شکل میں نہیں تھا، بلکہ متفرق پارچوں کی شکل میں تھا، اس کے ساتھ ہی بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنی یاد داشت کے لیے آیات قرآنی اپنے پاس لکھ لیتے تھے، اور یہ سلسلہ اسلام کے ابتدائی عہد سے جاری تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کے لانے سے پہلے ہی اُن کی بہن اور بہنوئی نے ایک صحیفہ میں آیات قرآنی لکھی ہوئی تھیں۔ (سیرت ابن ہشام)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمع قرآن
لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کریم کے جتنے نسخے لکھے گئے تھے اُن کی کیفیت یہ تھی کہ یا تو وہ متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے کوئی آیت چمڑے پر، کوئی درخت کے پٹے پر، کوئی ہڈی پر، یا وہ مکمل نسخے نہیں تھے، کسی صحابی کے پاس ایک سورت لکھی ہوئی تھی، کسی کے پاس دس چانچ سورتیں اور کسی کے پاس صرف چند آیات، اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آیات کے ساتھ تفسیری جملے بھی لکھے ہوئے تھے۔
اس بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں یہ ضروری سمجھا کہ قرآن کریم کے ان منتشر حصوں کو یک جا کر کے محفوظ کردیا جائے، انہوں نے یہ کارنامہ جن محرکات کے تحت اور جس طرح انجام دیا اس کی تفصیل حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جنگ یمامہ کے فوراً بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ ‘‘عمر رضی اللہ عنہ نے ابھی آکر مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگ یمامہ میں قرآن کریم کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی، اور اگر مختلف مقامات پر قرآن کریم کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ ناپید نہ ہوجائے، لہذا میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے حکم سے قرآن کریم کو جمع کروانے کا کام شروع کردیں’’ میں نے عمر ؓ سے کہا کہ جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں۔
عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد عمرؓ مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرح صدر ہوگیا اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمرؓ کی ہے، اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے مجھ سے فرمایا کہ ‘‘تم نوجوان اور سمجھدار آدمی ہو، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کتابت وحی کا کام بھی کرتے رہے ہو لہذا تم قرآن کریم کی آیتوں کو تلاش کرکے انہیں جمع کرو۔’’
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ‘‘خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے کوئی پہاڑ ڈھونے کا حکم دیتے تو مجھ پر اس کا اتنابوجھ نہ ہوتا جتنا جمع قرآن کے کام کا ہوا، میں نے اُن سے کہا کہ آپ وہ کا کیسے کررہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا’’۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے میرا سینہ اسی رائے کے لیے کھول دیا، جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی رائے تھی، چنانچہ میں نے قرآنی آیات کو تلاش کرنا شروع کیا اور کھجور کی شاخوں، پٹھی کی تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کریم کو جمع کیا۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں