حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام، آپ کے متبنیٰ اور محبوب صحابی ہیں۔ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں اور غزوہ بدر میں اپنی بہادری کے جوہر دکھانے والوں میں سرفہرست ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انہیں حِبُّ الرسول اور ان کے صاحبزادے اسامہ کو حِبّ بن حب کہتے تھے، اصحاب رسول میں سے یہ شرف صرف حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے کہ ان کا نام صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے۔ اسی فضیلت کی بناء پر بعض لوگوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو افضل الصحابہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوتے۔
مختصر سوانحی خاکہ
آپ کا نام نامی: زید، کنیت: ابواسامہ، لقب: حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، والد کا نام حارثہ اور والدہ کا نام سعدی بنت ثعلبہ ہے، سلسلہ نسب اس طرح ہے: زید بن حارثہ بن شرحبیل بن کعب بن عبدالعزیٰ بن امرؤالقیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبدود بن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن دبرہ بن ثعلب بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ۔
حلیہ اور عمر
آپ کا قد کوتاہ، ناک پست اور رنگ گہرا گندمی۔ 54 یا 55 برس کی عمر میں شہادت پائی۔ (الاصابہ، تذکرہ زید بن حارثہ)
ازدواج
مختلف اوقات میں متعدد نکاح کیے، آپ کی ازدواج کے نام یہ ہیں: ام ایمن، ام کلثوم بنت عقبہ، درہ بنت لہب، ہند بنت العوام، زینب بنت جحشؓ۔ (اسدالغابہ، تذکرہ زید بن حارثہ)
اولاد
آپ کی اولاد میں دو لڑکے، اسامہ بن زید، زید بن زید اور ایک لڑکی رقیہ ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے سوا دونوں بچے بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول تذکرہ زید بن حارثہ)
حالات قبل از اسلام
حضرت زید یمن کے قبیلے بنو قضاعہ کے سردار حارثہ بن شرحبیل کے لخت جگر تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں ڈاکوؤں کے ہاتھ لگ گئے۔ زید کی والدہ سُعدیٰ بنت ثعلبہ قبیلہ طے کی شاخ بنی مَعن سے تھیں۔ یہ اپنی والدہ کے ساتھ نانیہال گئے، وہاں سفر میں ان کے پڑاؤ پر قیس بن جسر کے لوگوں نے حملہ کیا، پکڑے جانے والوں میں نوعمر زید بھی تھے، ان لوگوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے قبیلے میں ان کو بیچ دیا، ادھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام نے انہیں خرید لیا اور انہیں اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے حوالے کردیا۔ حضرت خدیجہ سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو حضرت خدیجہ کے یہاں دیکھا اور ان کی عادات و صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئیں، تو آپ نے ان کو حضرت خدیجہ سے مانگ لیا اور حضرت خدیجہ نے بہ خوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ (طبقات ابن سعد، ج۲، ص27)
دوسری طرف قافلے کے لوٹے جانے کی خبر سے زید کے گھروالوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور زید کے والدین کو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ زید زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ وہ بیٹے کی جدائی سے بہت پریشان تھے انہوں نے مسلسل تلاش جاری رکھی۔ اسی درمیان ایک مرتبہ حج پر آئے ہوئے لوگوں نے زید کو پہچان لیا اور انہیں ان کے والد کی حالت زار سے آگاہ کیا۔ زید کے والد کو جب بیٹے کا سراغ ملا تو وہ مکہ پہنچے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ زید کو فدیہ لے کر آزاد کردیں، ہم زندگی بھر آپ کے ممنون احسان رہیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر زید تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو میں کسی قسم کا فدیہ لیے بغیر ہی اسے تمہارے ساتھ بھیجنے کے لیے تیار ہوں۔ حضرت زیدؓ کو بلا کر پوچھا گیا: کیا تم انہیں پہچانتے ہو؟ وہ بولے: کیوں نہیں! یہ میرے والد گرامی ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اگر اپنے والد کے ساتھ جانا چاہو تو بہ خوشی جاسکتے ہو اور اگر میرے پاس رہنا چاہو تو بھی رہ سکتے ہو۔ یہ حضرت زید کا امتحان تھا، ایک طرف وہ باپ تھا جو مدت سے ان کی تلاش میں سرگرداں تھا، اور زید کے دل میں باپ کی محبت کا سمندر موجزن تھا؛ لیکن انہیں دوسری طرف نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا شرف عظیم بھی حاصل تھا۔ امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے قسم کھا کر کہا: واللہ! العبودیۃ عند محمدﷺ أحب الی من أن اکون عندکم، خدا کی قسم! محمد مصطفیﷺ کی غلامی مجھے تمہارے پاس رہنے سے زیادہ مرغوب ہے۔ (تفسیر قرطبی، ج14، ص: 193)
والد اور چچا حیران ہوگئے اور کہنے لگے: زید! کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس ہستی کے ساتھ وہ کر میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کے بعد دنیا و مافیہا کو اس کے سامنے ہیچ سمجھتا ہوں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سن کر باپ اور چچا خاموش ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمع عام میں اعلان کرادیا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں، آج سے زید میرا بیٹا ہے۔ یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے ۔ حارثہ نے یہ سنا تو اور بھی خوش ہوئے۔ باپ اور چچا دونوں مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔ اب وہ کبھی کبھی مکہ آتے اور حضرت زیدؓ کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرلیتے۔ چونکہ حضرت زیدؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا، اس لئے لوگ اب آپ کو زید بن محمد پکارنے لگے بعد میں قرآن مجید کے ذریعہ بتلایا گیا کہ متبنی کی حیثیت حقیقی بیٹے کی نہیں ہے؛ بلکہ کہ وہ دینی بھائی کے درجے میں ہے۔ (الاحزاب)
ایمان، تکمیل ایمان اور ہجرت مدینہ
جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں، جنھوں نے کسی تردد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ نبوت سنتے ہی آپ کو اللہ کا سچا رسول تسلیم کرلیا۔ ایک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، دوسرے حضرت زیدؓ، تیسرے حضرت علیؓ اور چوتھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہم۔ اس وقت حضرت زید کی عمر تیس سال تھی اور وہ حضور کی خدمت میں رہتے ہوئے پندرہ سال گزارچکے تھے۔
حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آیا اور کنیز تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نہایت محبوب رکھتے تھے، اور اماں کہہ کر مخاطب فرماتے تھے، ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے نکاح کرنا چاہتا تو اس کو ام ایمن سے نکاح کرنا چاہئے، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، ان سے نکاح کرلیا، چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما جو اپنے والد کے بعد حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہور ہوئے، ان ہی کے بطن سے مکہ میں پیدا ہوئے۔
جب حضرت زید رضی اللہ عنہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ بھی حضرت کلثوم بن ہدمؓ کے مہمان ہوئے، حضرت اسید بن حضیرؓ انصاری جو قبیلہ عبدالاشہل کے معزز رئیس تھے، ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے، حضرت زید رضی اللہ عنہ اب تک خاندان نبوت کے ایک ممبر کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، لیکن یہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک علیحدہ مکان مخصوص فرما دیا اور اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحشؓ کا ان سے نکاح کردیا، اس طرح درحقیقت یہ دوسرا طرہ افتخار تھا جو حضرت زید رضی اللہ عنہ کے دستار فضل پر نصب ہوا؛ لیکن یہ نکاح زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا، نسبی و خاندانی عدم توازن نے دونوں کی سطح مزاج میں نشیب و فراز پیدا کردیے، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے دربار نبوت میں بار بار ناموافقت کی شکایت کی اور بالآخر طلاق دینے پر مجبور ہوگئے، انقضائے عدت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ کی معرفت پیام نکاح بھیجا تو انہوں نے کہا، جب تک خدا کی طرف سے کچھ حکم نہ آئے میں کچھ نہیں کرسکتی، چنانچہ اس کے بعد ہی قرآن نے ان کو امہات المومنین میں داخل ہونے کی خوش خبری سنائی۔
محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم
جس طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و عقیدت رکھتے تھے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے پدرانہ شفقت کا معاملہ فرماتے اور انہیں اپنے خاندان کا ایک فرد سمجھتے تھے۔ جب کسی مشن کے لیے حضرت زیدؓ کو روانہ کرتے تو ان کے لیے دعا کرتے، جب وہ مشن سے واپس لوٹتے تو آپ دلی مسرت کا اظہار فرماتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک ملاقات کا منظر بیان فرماتی ہیں کہ: ایک مرتبہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایک سفر سے مدینہ واپس آئے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے، انہوں نے دروازے پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے دروازہ کھولنے کے لیے اٹھے، جب دروازہ کھولا تو سامنے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، انہیں دیکھ کر آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہی، فوراً گلے لگالیا، ماتھا چوما اور دعاؤں سے نوازا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بہ خدا میں نے پوری زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کا اس طرح استقبال و خیرمقدم کرتے نہیں دیکھا۔
کارہائے نمایاں
حضرت زید رضی اللہ عنہ تیراندازی میں غیرمعمولی مہارت و دست رس رکھتے تھے، آپ کا شمار ان مشاہیر صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا تھا جو اس فن میں بے نظیر تھے، معرکہ بدر سے غزوہ موتہ تک جس قدر اہم و خون ریز معرکہ کے پیش آئے سب میں جرأت و بہادری اور شجاعت و پامردی کے ساتھ شریک کارزار ہوئے، غزوہ مریسیع میں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مدینہ میں اپنی جانشینی کا شرف بخشا، اس لیے اس مہم میں حصہ نہ لے سکے۔
معروف غزوات کے علاوہ اکثر چھوٹی چھوٹی مہمات آپ رضی اللہ عنہ کی قیادت و سپہ سالاری میں کام یابی سے ہم کنار ہوئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جس لشکر میں زیدؓ شریک ہوتے تھے، اس میں امارت کا عہدہ ان ہی کو عطا ہوتا، مؤرخین کے مطابق کم وبیش نو دفعہ سپہ سالار بنا کر بھیجے گئے، ان مہمات و سرایا میں سے پہلی مہم سریہ قردہ تھی جس میں آپ نے غنیم کو نہایت کامیابی کے ساتھ شکست دی، اور بہت سے اونٹ، مال و اسباب اور دشمن کے ایک سردار فرات بن حیان عجلی کو گرفتار کرکے لائے۔ (سیرالصحابہؓ جلد دوم، ذکر مہاجرین، تذکرہ زید بن حارثہؓ)
اسی طرح ربیع الثانی ۶ھ میں بنی سلیم کی سرکوبی پر مامور ہوئے، اس مہم میں بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی، بہت سے اونٹ بکریاں اور قیدی پکڑ کر لائے۔ اسی سال قریش کے ایک قافلہ کو جو شام سے واپس آرہا تھا روکنے کا حکم ہوا، حضرت زید رضی اللہ عنہ ایک سو ستر سواروں کے ساتھ یکا یک مقام عیص میں اس قافلہ پر جا پڑے اور تمام اہل قافلہ کو مع سامان گرفتار کر لائے، مال غنیمت میں چاندی کا ایک بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا جو صفوان بن امیہ کے لیے شام سے آرہا تھا، قیدیوں میں ابوالعاص ن الربیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد بھی تھے، جنھوں نے اپنی اہلیہ اور حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پناہ حاصل کرکے خلاصی پائی۔ اسی سال ماہ جمادی الثانیہ میں مقام طرف پر حملہ آور ہوئے؛ لیکن کوئی جنگ نہ ہوئی کیونکہ دشمن پہلے ہی خائف ہوکر بھاگ گیا تھا، اس کے بعد مقام حسمیٰ پر فوج کشی ہوئی، پانچ سو جانباز مجاہد آپ رضی اللہ عنہ کے زیر کمان تھے، آپ رضی اللہ عنہ احتیاط کے خیال سے دن کو پہاڑوں میں چھپ جاتے تھے اور رات کو یلغار کرتے ہوئے قطع منازل کرتے تھے، یہاں تک کہ ایک روز یکایک غنیم پر جا پڑے، اور سالماً غانماً واپس آئے، چونکہ اس قوم کے ایک رکن ابویزید بن عمرو نے دوراندیشی سے پہلے ہی پہنچ کر اسلام قبول کرلیا تھا، اس لیے ان کی سفارش پر تمام قیدی رہا کردئے گئے، اور مال غنیمت واپس کردیا گیا، پھر اسی سال ماہ رجب میں وادی قری کی مہم پر بھیجے گئے اور کامیابی کے ساتھ واپس آئے۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی باب سریہ طرف صفحہ 63)
غروہ موتہ میں شرکت اور مرتبہ شہادت
صلح حدیبیہ کے بعد ۷ ھ کے بالکل اوائل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رؤساءِ عرب کے نام بھی نامہ ہائے مبارک ارسال فرمائے تھے جو عرب اور شام کے سرحدی علاقوں میں آباد تھے۔ ان میں غسان کا قبیلہ تعداد میں بھی بڑا تھا اور کافی طاقتور بھی تھا۔ اس قبیلہ کے لوگ اگرچہ عرب تھے، لیکن ایک مدت سے عیسائی تھے، یہ قبیلہ قیصر روم کے ماتحت اور اس کا باج گزار تھا، اس وقت قبیلہ کا رئیس و حکم ران شُرَحبیل بن عمرو نامی شخص تھا، اس کے پاس حارث بن عمیرؓ بطور قاصد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک لے کر گئے تھے۔ اس بدبخت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو شہید کردیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ؓ کے خون کے قصاص کے لئے تین ہزار کا لشکر تیار کرکے جمادی الاولیٰ ۸ھ میں شام کی طرف بھیجا، اس لشکر کا سپہ سالار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور پہلے ہی سے طے کردیا کہ اگر ان کو دولت شہادت نصیب ہو تو حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی) سپہ سالار ہوں گے، اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سپہ سالار ہوں گے جو انصار تھے اور مشہور شاعر تھے۔
اِدھر مدینہ میں مسلمانوں کا شکر ترتیب پا رہا تھا اور اُدھر جاسوسوں نے شرحبیل کو خبر کردی۔ چنانچہ شرحبیل نے اس لشکر کے مقابلہ کے لئے قریباً ایک لاکھ کی فوجی تیار کی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ معاملہ قصاص اور انتقام کا ہے، لہذا جنگ ضرور ہوگی، پھر خود قیصر روم (ہرقل) ایک بہت بڑی فوج لے کر غسانیوں کے دارالحکومت بصریٰ سے چند میل کے فاصلہ پر آکر بیٹھ گیا تھا کہ اگر غسانی شکست کھائیں تو وہ ان کی مدد کے لئے اپنی فوج لے کر پہنچ جائے۔ اہل ایمان کے لشکر کو جب غسانیوں کی تیاری اور اس کی پشت پر ہرقل کی فوج کی موجودگی کا علم ہوا تو مشورہ ہوا کہ ان حالات میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے، اس سنگین صورت حال میں مقابلہ کا خطرہ مول لینا چاہیے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے کر آپ ﷺ کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ ہمیں سردست مقابلہ نہیں کرنا چاہیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے؛ لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ مقابلہ کیا جائے، چنانچہ وہ اٹھے اور انہوں نے تقریر کی کہ مسلمانو! ہم دنیا کے طالب ہو کر نہیں نکلے، فتح اور شکست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ہم تو شہادت کے متمنی ہیں، اللہ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے تو ہم تاخیر کیوں کریں۔ اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ فیصلہ ہوگیا کہ اب مقابلہ کیا جائے گا، چنانچہ تصادم ہوا او رزبردست تصادم ہوا۔ کہاں تیں ہزار کی مختصر جماعت اور کہاں ایک لاکھ کا لشکر جرار! لیکن جوش ایمانی اور شوق شہادت سے سرشار یہ مختصر جماعت ایک لاکھ فوج پر حملہ آور ہوئی، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ایسی جواں مردی کے ساتھ جنگ لڑی کہ جنگی کارناموں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، بالاخر دشمن کے نیزوں نے آپ کے جسم کو چھلنی چھلنی کردیا اور آپ رضی اللہ عنہ داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے، آپ کے بعد جھنڈا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے تھام لیا اور اس کی حفاظت کے لیے بڑی جاں فشانی سے دشمن کے مقابلے میں نبرد آزما رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، ان کے شہید ہوجانے کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا اور ایسی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا کہ دیکھنے والے شش در رہ گئے؛ لیکن بالاخر لڑتے لڑتے اللہ کو پیارے ہو گئے، ان کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار منتخب کیا گیا ابھی آپ نئے نئے حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے تھے، لیکن آپ نے اپنے تجربیات کی بنا پر ایسی جنگی تدبیر اختیار کی کہ لشکر اسلام کو ہزیمت سے بچالیا۔
جب جنگ ‘‘موتہ’’ کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور لشکر اسلام کے تین سپہ سالاروں کی شہادت کا علم ہوا تو آپ اتنے غمگین ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی آپ کو اس طرح حالت غم میں نہیں دیکھا گیا۔ آپ خبر سنتے ہی فوری طور پر تعزیت کے لئے ان کے اہل خانہ کے پاس گئے، جب آپ تسلی دینے کے لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے تو آپؓ کی چھوٹی بیٹی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ کر زار و قطار رونے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آب دیدہ ہوگئے، یہ منظر دیکھ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی رو رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ ایک حبیب کا اپنے حبیب کے غم میں رونا ہے۔ رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ
آپ کی رائے