شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

کسی بھی ریاست کے لیے مناسب نہیں اپنی قوم کو مارکر قتل کرے

کسی بھی ریاست کے لیے مناسب نہیں اپنی قوم کو مارکر قتل کرے

خطیب اہل سنت زاہدان نے چودہ اکتوبر دوہزار بائیس کے خطبہ جمعہ میں ایران کے ملک گیر احتجاجوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ‘‘داخلہ و خارجہ پالیسیوں کی ناکامی’’ کو عوامی غم و غصے کے اسباب میں شمارکیا ۔ انہوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا عوام کے تمام طبقوں کو دیکھیں اور قوم کی آواز سنیں۔
زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: حالیہ دنوں ملک میں بعض واقعات پیش آئے اور بیس سے زائد دن ہوچکے ہیں کہ عوام سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عوام کیوں احتجاج کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں؟ اگر داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر نظر دوڑائیں، ان کی ناکامی واضح نظر آتی ہے۔ جب کسی ملک میں پالیسیاں ناکام ہوں اور مسائل پیدا ہوجائیں، وہاں ضرور عوام احتجاج کریں گے۔

مظلوموں کی آہ تباہ کن ہے
انہوں نے زاہدان کے خونیں جمعہ کے ہولناک حادثے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: دو جمعہ قبل یہاں بہت بڑا ظلم ہوا۔ مجھے یقین اور قسم کھاکر کہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ اس ظلم سے ناراض ہوا ہے؛ ہم سب یہاں موجود تھے اور ہم نے دیکھا کیا کچھ ہوا۔ ان بے گناہ نمازیوں کو قتل کرنا اللہ کے یہاں بڑی بات ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: ہم نے عوام سے درخواست کی کہ امن کی پاسداری کریں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہماری بات مانی۔ ہم اپنی بات کرتے رہیں گے اور ہماری باتیں جذبہ خیرخواہی کے تحت ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مظلوموں کی آہ تباہ کن ہے۔ ان لوگوں کو پر ظلم ہوا اور اللہ گواہ ہے کہ وہ ناحق شہید ہوئے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارا مطالبہ ہے کہ حکام اس حادثے کی تحقیقات کریں۔ جب تک وہ لوگ جنہوں نے عوام کو قتل کیا، مذمت نہ ہوجائیں اور ان کا ٹرائل نہ ہو، عوام کی رضامندی حاصل نہیں ہوگی۔
انہوں نے حاضرین سے درخواست کی شہدا، زخمیوں اور قیدیوں کی معلومات جمع کرائیں تاکہ قانونی شکایت میں درست معلومات کے ساتھ آگے جاسکیں۔
ممتاز عالم دین نے میڈیا ذرائع کو مخاطب کرکے کہا عوام کے زخموں پر نمک نہ ڈالیں اور حقائق بیان کریں۔

عوام روٹی اور پیسے کے غلام نہیں ہیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان میں ملک گیر احتجاجوں کو معاشی مسائل تک محدود رکھنے کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا: یہ بات درست ہے کہ ہمارے ملک کے دشمن بھی ہیں جو قوم اور حکومت کے درمیان جدائی ڈالنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے عوام کو مشتعل کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے مسائل بھی زیادہ ہیں اور یہ محض معاشی مسائل نہیں ہیں۔ جو لوگ صرف معیشت کو پیش کرتے ہیں، وہ سخت غلطی پر ہیں۔ لوگ آزادی اور عزت چاہتے ہیں۔ یہ لوگ روٹی اور پیسے کے غلام نہیں ہیں، وہ اپنی آزادی اور عزت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: معیشت اہم مسئلہ ہے، لیکن کچھ عرصے سے ایک رویہ اختیار کیاجاچکاہے کہ ہمارے مسائل صرف معاشی ہیں اور عوام کا بس یہی ایک مسئلہ ہے۔ یہ سنگین غلطی ہے۔ خارجی مسائل کی نفی نہیں کرتے ہیں، لیکن داخلی مسائل زیادہ توجہ طلب ہیں۔ ایسے فلٹر بنائے گئے ہیں کہ بہت سارے افراد سیاسی نظام کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں اور آج ایسی شکایات اور مسائل پیش آچکے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ اور کابینہ میں مختلف خیالات کے لوگ تنوع کے ساتھ ہوتے، مسائل اتنے گھمبیر نہ ہوتے۔

کاش حکام پوری قوم کو دیکھتے!
زاہدان کے خطیب جمعہ نے کہا: اس ملک میں مختلف قومیتوں اور مسالک کے لوگ اکٹھے رہتے ہیں۔ اس رنگارنگی کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسے پسند بھی ہے۔ اس رنگارنگی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ سب مذاہب، مسالک اور لسانی برادریوں کو عزت دینی چاہیے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس رنگارنگی کو مدنظر رکھ کر سب کو آزادی دے۔
انہوں نے مزید کہا: ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ حکام کہیں فلان شخص درویش ہے اور اسے آزادی حاصل نہیں ہونی چاہیے۔ دراویش کے عقائد اگر تہمارے نزدیک غلط ہیں، وہ خود جوابدہ ہوں گے، ہمیں ان سے کیا؟ اظہارِ رائے کی آزادی اس قدر محدود نہیں ہونی چاہیے کہ افراد کو حساس ادارے فون کرکے دھمکی دیں۔
مولانا عبدالحمید نے حکام کو مخاطب کرکے کہا: مختلف سلیقے اور دلچسپی کے لوگوں کو بات کرنے دیں۔ اس قوم اور حکومت کے خیرخواہوں کی بات تھی کہ اہل سنت کو دیوار سے نہ لگائیں اور حکومتوں میں انہیں شامل کریں۔ مصر میں جب محمد المرسی کی حکومت بنی، میں نے انہیں خط لکھ کر کہا کہ اپنی حکومت میں شیعہ، عیسائی اور حتی کہ لبرل لوگوں کو شامل کریں۔ افغانستان میں طالبان کو بھی یہی کہاگیا۔ ہمارے ملک میں بھی دیندار اور بے دین، ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اور یہ سب ایرانی قوم ہی کے حصے ہیں۔ کاش ہمارے حکام بے غرض لوگ ہوتے اور سب کی باتیں سنتے اور پوری قوم کے مختلف طبقوں کو دیکھتے، کسی کو نظرانداز نہ کرتے۔

مقتدر افراد قوم کی آواز سنیں
احتجاج کرنے والوں کے خلاف کریک داؤن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: میرا عقیدہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ جو احتجاج کرتاہے، اے دشمن نہ سمجھاجائے۔ دنیا کی کسی بھی ریاست کو زیب نہیں دیتا کہ اپنی قوم کو مارکر قتل کرے۔ دنیا میں تمہارا کوئی بھی دشمن ہو، یہی قوم تمہاری حمایت کرے گی۔ اگر کسی ریاست نے اپنی قوم کھودیا، پھر کون اس کا حامی ہوگا؟ اگر میرے ہاتھ کوئی طاقت ہوتی، میں ضرور لوگوں سے نہیں الجھتا اور ان کی بات مان لیتا۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: امید کرتے ہیں جو کچھ ملک میں پیش آیاہے، خیر کا باعث ہو اور اللہ تعالیٰ اس مسئلے میں ہماری مدد فرمائے۔ عوام کی اکثریت ملک میں تبدیلی چاہتی ہے اور حکام کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جو لوگ اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور اقتدار پر قابض ہیں، قوم کی آواز سن لیں اور ان کے مطالبات مان لیں۔
مولانا نے کہا زاہدان کے حادثے کے بعد قید ہونے والے بعض افراد رہا ہوچکے ہیں اور امید کرتے ہیں دیگر قیدی بھی رہا ہوجائیں۔ انہوں نے دعا کی اللہ تعالیٰ زاہدان کی عیدگاہ کے شہدا کے درجات کو بلند فرمائے اور صدر اسلام اور کربلا کے شہدا کے ساتھ محشور فرمائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں