زاہدان کے خونین جمعہ میں نمازیوں کو شہید کرنے کی پرزور مذمت کرتے ہیں

زاہدان کے خونین جمعہ میں نمازیوں کو شہید کرنے کی پرزور مذمت کرتے ہیں

ملک کے اعلیٰ حکام غیرجانبدارانہ اور عادلانہ تحقیق کرائیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے تازہ ترین بیان میں زاہدان کے ‘خونین جمعہ’ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کی ‘عادلانہ اور غیرجانبدارانہ’ تحقیقات کا مطالبہ پیش کیا۔ انہوں نے درجنوں شہید نمازیوں کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں قرارِ واقعی سزا دلوانے پر زور دیا۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان نے اس جمعے کی تقریب میں جو نمازیوں کے جم غفیر اور غیرمعمولی تعداد کے ساتھ منعقد ہوئی، گزشتہ جمعے کے خونین حادثے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: گزشتہ جمعہ جب لوگ نماز ادا کرنے عیدگاہ آئے، کسی کو پتہ نہیں تھا یہاں کیا قیامت بپا ہوجائے گی۔ نماز جمعہ سکون کے ساتھ ادا کی گئی اور نمازی عیدگاہ میں سنتیں پڑھنے میں مصروف تھے کہ کچھ نوجوان جن کی تعداد بہت کم تھی، قریب واقع پولیس سٹیشن کی جانب بڑھے اور پتھراؤ کیا، لیکن جواب میں ان نوجوانوں کے علاوہ، عیدگاہ میں موجود نمازیوں اور یہاں سے نکل کر اپنے گھروں کی جانب جانے والے نمازیوں پر بھی فائرنگ کی گئی۔
انہوں نے کہا: جو کچھ گزشتہ جمعہ یہاں پیش آیا بہت المناک اور چونکادینے والا تھا۔ لوگ پریشان تھے کہ کس طرف سے اور کس مقصد سے ان کی طرف فائرنگ ہورہی ہے۔ اس واقعے میں متعدد نمازی شہید اور زخمی ہوئے۔ اکثر شہیدوں اور زخمیوں کے سروں اور سینوں پر فائرنگ ہوئی تھی، حالانکہ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور ایران سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لیے آنسوگیس اور دیگر ذرائع سے کام لیاجاتاہے اور فائرنگ کی نوبت اگر آجائے، جسم کے نچلے حصے اور پاؤں پر فائرنگ کی جاتی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے سوال اٹھایا: مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے نہتے نمازیوں کو نشانہ بنایا کیا وہ ایرانی اور ہمارے ہم وطن تھے؟ ہمارے درمیان دینی اور قومی بھائی چارہ اور رشتہ داری ہے، نمازیوں کو شہید کرنے والے لوگوں کا ہمارے ساتھ کیا تعلق تھا؟
خطیب اہل سنت زاہدان نے نمازیوں کو شہید کرنے کے واقعے کو ‘جنایت’ یاد کرتے ہوئے پرزور الفاظ میں اس کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا: ہم اس جنایت کو پرزور لفظوں میں مذمت کرتے ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جاں بحق نمازیوں کو سرکاری طور پر ‘شہید’ اعلان کرنا کافی نہیں ہے؛ قرآن و سنت نے خود ان کو شہید اعلان کیا ہے۔ علما، عمائدین اور عام شہریوں کا مطالبہ ہے کہ دارالحکومت میں بیٹھے حکمران اس ظلم عظیم کی مذمت کریں اور غیرجانبداری سے اس حادثے کی حقیقت معلوم کرائیں تاکہ پتہ چلے ہمارے لوگ کس جرم کی سزا میں اتنی بے دردی سے شہید ہوئے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: وزیر داخلہ، پارلیمنٹ کے سلامتی کمیشن کی جانب سے ایک وفد اور صوبہ سے منتخب ارکان پارلیمنٹ پر ہم نے واضح کردیا یہاں کیا ہوا ہے اور ہم نے اپنے لوگوں کی بے کسی اور مظلومیت بیان کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ قانونی طورپر واقعے کی شفاف تحقیقات کرائی جائے، اس کے پیچھے کارفرما ہاتھوں کو قرارِ واقعی سزا دلوائی جائے، لوگوں کو پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات کا حکومت کی طرف سے ازالہ کیا جائے اور اس واقعے کے بعد گرفتار ہونے والے شہریوں کو جلداز جلد رہا کیا جائے تاکہ عوام کو تسلی ہوجائے۔ ہم اپنے حق سے بڑھ کر کوئی چیز مطالبہ نہیں کرتے ہیں۔

عوام کی ہمدردی اور بعض ذرائع ابلاغ کی جانب سے حقیقت دکھانے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں
سرکاری ٹی وی سے ہمیں سخت شکوہ ہے
ممتاز سنی عالم دین نے اپنے بیان کے ایک حصے میں کہا: ایران کے تمام عوام جن کا تعلق مختلف قومیتوں اور لسانی گروہوں سے ہے اور دیگر ملکوں کے عوام کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں ہمارے مظلوم لوگوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اسی طرح ان میڈیا ہاؤسز کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے غیرجانبداری سے حقائق کو کوریج دیا۔ لیکن سرکاری ٹی وی اور صوبائی میڈیا سے ہمیں سخت شکوہ ہے جو خود کو ‘قومی’ میڈیا کہتے ہیں اور یہ نام انہیں ہرگز زیب نہیں دیتا۔
انہوں نے مزید کہا: بعض حکام نے کوشش کی اس واقعے کو شدت پسند اور علیحدہ پسند گروہوں سے جوڑیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے حق ہمیشہ کے لیے چھپ کر نہیں رہتا جیسا کہ سورج ہمیشہ کے لیے بادلوں کے پیچھے نہیں رہتا۔ اس واقعے سے ہمارے لوگوں کی بے کسی اور مظلومیت اور حادثے کی حقیقت حکام اور دیگر طبقوں کے لیے واضح ہوگئی۔ اس واقعے نے ہمارے لوگوں کو بیدار کیا کہ اس کے بعد واضح طور بلاجھجک اپنے مطالبات اور حقوق کا مطالبہ کریں۔

عوام امن کا خیال رکھتے ہوئے اپنے مطالبات پیروی کریں
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے امن عامہ کی پاسداری پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا: امن، بھائی چارہ اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت ہم سب کے مفاد میں ہے۔ اپنے جذبات پر قابو کریں تاکہ اس کیس کی پیروی میں رکاوٹ پیش نہ آئے اور اس حادثے میں ملوث افراد اپنے آپ کو بچانے کے لیے حالات کو بدلنے کی کوشش کرنے میں ناکام ہوجائیں۔
انہوں نے مزید کہا: صوبہ سیستان بلوچستان کے حالات خاص ہیں۔ لہذا شاہراہوں کے امن کا خیال رکھیں تاکہ شہدا اور زخمیوں کا حق ضائع نہ ہوجائے۔ اگر ہمارا صوبہ بدامنی کا شکار ہوجائے، بری طرح نقصان سے دوچار ہوگا۔ گزشتہ دنوں جب شہر میں بدامنی پھیل گئی، عوامی مقامات اور بیت المال کو سخت نقصان پہنچا اور بعض دوکانوں کو جلایا گیا اور جلانے والوں کی شناخت ابھی تک ہمارے لیے نامعلوم ہے۔
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت نے کہا: اس سٹیج سے کبھی فرقہ وارانہ باتیں نہیں کی گئیں کہ کسی کو ہم سے دشمنی ہوجائے، یہاں صرف عوامی مطالبات پیش اور بیان ہوئے ہیں۔ اگر حکام ان مطالبات پر توجہ دیتے اور ہماری بات سنتے، حالات کا رخ اس طرف نہیں جاتے۔

کوئی بھی حکومت ظلم کے ساتھ پائیدار نہیں رہ سکتی ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: حکومت چلانا اور مملکت داری صرف نفاذِ عدل سے ممکن ہے۔ ظلم پائیدار نہیں ہے اور ضرور ختم ہوگا اور حکومتیں ظلم کے ساتھ اپنی بنیادیں ہلاکر انہیں ختم کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: 1979ء کے انقلاب میں نعرہ لگایا جاتا تھا کہ ‘‘الملک یبقی مع الکفر ولایبقی مع الظلم’’: کوئی بھی حکومت کفر کے ساتھ باقی رہ سکتی ہے، لیکن ظلم کے ساتھ کوئی بھی حکومت باقی نہیں رہ سکتی ہے۔ لہذا کوئی بھی شخص کسی بھی لباس میں چاہے اسلام کا نام لے اور غیرمسلم ہو، خود کو کسی امام یا نبی کی اولاد بتائے، لیکن اگر ظلم کا ارتکاب کرے تو اس کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ ظلم چلاجاتاہے اور انصاف باقی رہتاہے۔
یاد رہے نماز جمعہ سے پہلے شہدائے جمعہ تیس ستمبر اور جامع مسجد مکی کے 93ء کے شہدا کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی اور ان کے درجات بلند ہونے کی دعا ہوئی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں