بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں: ’صبح سے شام تک ہیلی کاپٹروں کے پیچھے بھاگتا ہوں کہ شاید راشن مل جائے‘

بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں: ’صبح سے شام تک ہیلی کاپٹروں کے پیچھے بھاگتا ہوں کہ شاید راشن مل جائے‘

عباس احمد ہیلی کاپٹر میں داخل ہوئے تو وہ پوری طرح اپنے حواس میں نہیں تھے۔ میں انھیں اس وقت سے فالو کر رہی تھی جب ہیلی کاپٹر چاروں طرف سے پانی میں گھرے زمین کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کے قریب جا کر رُک گیا۔ یہاں لوگ بھاگتے ہوئے ہیلی کاپٹر کی جانب آ رہے تھے۔
ہیلی کاپٹر کے اردگرد تقریباً پچاس فٹ تک ہوا اتنی شدید ہوتی ہے کہ پاؤں جما کر کھڑے ہونا مشکل ہوتا ہے۔ یہی صورتحال اس وقت وہاں بھی پیدا ہوئی جب ہیلی کاپٹر زمین کے قریب تقریباً 20 فٹ کی بلندی پر جا کر رُک گیا۔ پروں کی تیز ہوا اتنی شدید تھی کہ لوگ درختوں کے ساتھ لپٹ گئے۔
انہی میں ایک بوڑھا شخص بھی تھا جسے چند دیگر افراد سہارا دے کر ہیلی کاپٹر کے نزدیک لانے کی کوشش کر رہے تھے مگر تیز ہوا کے باعث یہاں تک نہیں پہنچ پائے جبکہ دوسری طرف عباس احمد اپنے ساتھی کے سہارے پانی میں اتر گئے۔ ان کا آدھا جسم پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔
یہ لوگ مسلسل ہاتھ اٹھا کر مدد مانگ رہے تھے۔ یہ دل دہلا دینے والا منظر تھا۔
دوسری طرف بوڑھا شخص ہیلی کاپٹر سے نیچے پھینکی گئی لفٹنگ سیٹ تک نہیں پہنچ پایا تاہم عباس اور ان کے کزن اس بار کامیاب ہو گئے۔
جب وہ ہیلی کاپٹر میں داخل ہوئے تو شاید کچھ لمحوں تک انھیں یقین نہیں آیا کہ وہ بچ گئے ہیں۔ انھیں یہاں پانی کی بوتل اور کھانے کے لیے رول دیے گئے۔
جب ان کی سانس بحال ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور ان کے اردگرد کیا حالات ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’باجی میں صبح سے شام تک ہیلی کاپٹروں کے پیچھے بھاگتا ہوں کہ شاید کوئی راشن مل جائے۔ صبح سے دو ہیلی کاپٹر آئے مگر مجھے راشن نہیں مل سکا۔ ابھی ملا ہے۔ میرے بچے کھلے آسمان تلے بھوکے بیٹھے ہیں۔ یہاں سے کچھ ملے گا تو ان کے پاس پہنچاؤں گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ جس گاؤں سے انھیں اٹھایا گیا ہے وہاں ’35 یا 40 گھر تباہ ہو چکے ہیں اور 200 سے زیادہ لوگوں کو مدد چاہیے۔‘
عباس کے ساتھ اس کے بعد کیا ہوا، وہ ہم آگے چل کر بتائیں گے مگر یہاں بتا دیں کہ جس مقام سے عباس اور ان کے ساتھی کو ریسکیو کیا گیا وہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ مراد جمالی کے علاقے تمبو میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جو چاروں طرف سے پانی میں ڈوب چکا ہے اور یہ صورتحال صرف اس ایک گاؤں کی نہیں۔

بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقے جہاں صرف ہیلی کاپٹر سے رسائی ممکن
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر حالیہ سیلاب کی تباہی نے اس کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔
یہاں دو ماہ میں تین بار سیلاب آیا ہے اور جس کے پاس جو بچا تھا وہ بہا کر لے گیا۔ یہاں 30 اضلاع اور 92 لاکھ افراد سیلاب سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں یعنی ان کی فصلیں تباہ ہوئیں، گھر گر گئے اور جمع پونجی بہہ گئی۔
بلوچستان کے سیلاب سے تباہ حال حصوں کا زمینی رابطہ تادم تحریر منقطع ہے۔ یہاں سے مسلسل یہی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ یہاں بعض اضلاع مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
چونکہ یہاں پہنچنے کے لیے زمینی راستے بند ہیں، اس لیے ہم نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اپنے ایک ریسکیو اینڈ ریلیف مشن کے ساتھ جانے دیں۔
بی بی سی کی ٹیم سنیچر کو کوئٹہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرہ علاقوں کی جانب نکلی۔ اس دوران زمین پر نظر آنے والے مناظر ناقابل یقین تھے۔
ایسا محسوس ہوا جیسے نیچے پانی کا ایک سمندر ہے اور یہ علاقے آہستہ آہستہ ڈوب رہے ہیں۔ ہر طرف تباہی کے نشان ہیں۔ ہر طرف پانی ہے اور پانی کے بیچ ڈوبے کھیت، اجڑے گھر اور ٹوٹے خواب۔
وہ کھیت جہاں چند ہفتے پہلے فصل تیار کھڑی تھی، آج اگلی فصل کے لیے بھی موزوں نہیں۔ یہاں قصبے ڈوب چکے ہیں۔ درخت پانی میں گم ہیں اور لوگ بے کس و مجبور، امداد کی راہ تک رہے ہیں۔ ہر طرف مایوسی اور بے یقینی ہے۔
پانی کئی فٹ گہرا ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی، جھل مگسی اور ان سے ملحقہ دیگر علاقوں کے فضائی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ سیلاب کی شدت کیا تھی۔ ان علاقوں میں کئی مقامات ایسے بھی دکھائی دیے جہاں کھڑا پانی آلودہ ہو گیا ہے۔ اس کا رنگ تبدیل ہو چکا ہے اور اب یہ بیماریوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔
یہاں جمع سیلاب کے پانی کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کئی کھیتوں میں ہم نے لوگوں کو تیرتے ہوئے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتے دیکھا۔
لوگ اب بھی اپنے ٹوٹے گھروں کے باہر سامان رکھ کر بیٹھے ہیں۔ زیادہ تر بستیوں میں لوگ ملبے کے ساتھ ہی ٹینٹ لگا کر گزارا کر رہے ہیں کیونکہ اپنی زمین اور مکان چھوڑنا ان کے لیے قابل قبول نہیں۔
سیلابی پانی کے بیچ اکثر مقامات پر خشک ٹیلے بنے ہیں، جہاں لوگ ٹینٹ یا پلاسٹک کی شیٹس لگا کر بیٹھے ہیں۔
ایسے ہی ایک مقام پر چند افراد مدد کے لیے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ زمین کا یہ ٹکڑا اردگرد کے تمام علاقوں سے کٹا ہوا تھا۔
ہیلی کاپٹر زمین کے نزدیک پہنچا تو ہم نے دو افراد کو رینگتے ہوئے اس کی جانب بڑھتے دیکھا۔ یہ لوگ ہاتھ پھیلا کر راشن اور ٹینٹ مانگ رہے تھے، ہوا اس قدر تیز تھی کہ ہیلی کاپٹر کے نزدیک آنا ناممکن تھا مگر یہ دونوں شخص رینگتے، گرتے پڑتے قریب آ رہے تھے تاکہ سامان حاصل کر سکیں۔
ہیلی کاپٹر کے عملے نے راشن کے تھیلے اور ٹینٹ ان کی جانب پھینکا اور واپسی کی اڑان بھری۔ یہ دونوں وہیں زمین کے ساتھ جڑے، ہاتھ اٹھا کر دعائیں دینے لگے۔
انھیں یقیناً یہ علم نہیں کہ اگلی مدد کب آئے گی، آئے گی بھی یا نہیں۔
راستے میں کئی مقامات پر امدادی سامان پھینکا گیا۔ ان گھروں کی جانب توجہ دی گئی جو چاروں طرف سے پانی میں گھرے تھے اور وہاں خواتین اور بچے موجود تھے۔
اس کے بعد ہم ڈیرہ مراد جمالی میں بنے ایک عارضی کیمپ میں پہنچے جہاں درجنوں خاندان کیمپس میں موجود ہیں۔
ان میں سے بیشتر کا تعلق صحبت پور اور دیگر انتہائی متاثرہ علاقوں سے ہے اور انھیں یہاں آئے پندرہ سے بیس دن ہو چکے ہیں۔ ان علاقوں کا زمینی رابطہ تاحال منقطع ہے۔
یہاں رہنے والے ہر خاندان کی ایک کہانی ہے۔

’بچے ہاتھوں سے پھسل رہے تھے، جان تو بچ گئی مگر گھر تباہ ہو گیا‘
ایک ٹینٹ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ بیٹھی امیراں بی بی نے بتایا کہ جب وہ بچوں کو لے کر نکلے تو انھیں امید نہیں تھی کہ اس سیلاب میں زندہ بچ پائیں گے۔
’پہلے جو سیلاب آیا تو ہم نےسوچا کہ یہ اتر جائے گا۔ دوسری بار بھی یہی سوچ کر نہیں نکلے کہ یہ پانی چلا جائے گا مگر اس کے بعد تو ایسا لگا جیسے دریا آ گیا ہو۔ اتنا زیادہ پانی تھا۔‘
امیراں بی بی نے اپنے کندھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پانی کی سطح کے بارے میں بتایا۔
’میرے بچے خوفزدہ تھے اور ہمارا تو کل اثاثہ یہی دو بچے ہیں۔ بس ایک ہی شور تھا کہ پانی آ گیا، پانی آ گیا، بھاگو، بھاگو۔ ایک بچہ میں نے اور دوسرا شوہر نے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور ہم نکل پڑے۔ بہت بارش اور بہت پانی تھا ہم بچ گئے مگر میرا گھر مر (تباہ) گیا۔‘
امیراں بی بی کے دو بچے ہیں، ایک کی عمر چار سال اور بیٹی کی عمر سات سال ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پورا دن اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گہرے پانی میں چلتی رہیں اور آخر کار انھیں فوجیوں کی ایک کشتی نظر آئی۔
’پانی کا زور بہت زیادہ تھا، وہ ہمیں چھوڑ ہی نہیں رہا تھا۔ میرے بچے ہاتھوں سے پھسل رہے تھے۔ ہم نے بہت مشکل سے ان کو پکڑا ہوا تھا۔ میرا شوہر مجھے بار بار کہتا کہ بچوں کو سنبھالو اور آہستہ آہستہ چلو۔‘
’میرے شوہر نے میرا بازو پکڑے رکھا اور بار بار کہا کہ گھبراؤ نہیں، چلتی رہو، ہمت کرو، بچوں کو سنبھالو، ہم تو بڑے ہیں مگر بچوں کو سنبھالو۔ بس اسی طرح سارا دن پانی میں چلتے رہے۔‘
امیراں بی بی کی طرح یہاں موجود سینکڑوں لوگوں کی یہ کہانیاں ہمیں محض ایک جھلک دکھا سکتی ہیں کہ پچھلے چند ہفتوں میں ان غریب خاندانوں پر کیا بیتی۔

’ہم پردہ دار تھیں، ہمارا پردہ چلا گیا‘
اسی کیمپ میں ریماں بی بی نامی خاتون بھی موجود تھیں۔ جب میں ان کے ٹینٹ کی طرف گئی تو میرے ساتھی فرقان الٰہی بھی ہمراہ تھے۔
ریماں نے فوراً چادر سے چہرہ ڈھانپ لیا اور اپنی بیٹی کو بھی دوپٹہ اوڑھا دیا۔ میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئی اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ پردہ کرتی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہ سخت مجبوری میں یہاں آئی ہیں۔
’رات دو بجے پانی آیا۔ ہم پیدل تھے، سڑک تک آئے اور ایک گاڑی والے نے دیکھا کہ بچے اور عورت پیدل ہیں۔ انھوں نے کہا ہم بلوچ ہیں، ہماری عورت پردے کے بغیر باہر نہیں نکلتی۔ انھوں نے ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور کیمپ تک لایا۔‘
ریماں نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ کپڑے تبدیل کرنے قریب ہی بنے ایک گھر گئیں۔
’یہاں ڈیرہ میں ایک بی بی کے گھر گئے اور وہاں جا کر کپڑے تبدیل کیے، بچوں کے کپڑے تبدیل کیے۔ ہمارے لیے بہت مشکل ہو گئی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ سارا دن رات یہیں ٹینٹ میں شوہر اور بچوں کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں، کہیں باہر نہیں نکل سکتے کہ باہر غیر مرد ہیں۔‘
یہ کہانی بلوچستان کی ہزاروں خواتین کی ہے جو عام حالات میں پردے کی پابندی کرتی ہیں مگر ان کھلے خیموں میں یہ مسئلہ ان کے چیلنجز میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
یہاں انتظامیہ نے بتایا کہ کیمپوں کے علاوہ عمارت کے اندر موجود کمروں میں بھی خواتین رہ سکتی ہیں جہاں مردوں کو آنے کی اجازت نہیں۔
تاہم ان کمروں میں زیادہ رش اور خواتین کی اپنے اہلخانہ کے ساتھ رہنے کی ترجیح کی وجہ سے بیشتر فیملیز خیموں میں ہی مقیم ہیں۔
یہاں انھیں پکا ہوا کھانا اور پینے کا پانی دیا جاتا ہے تاہم ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو پانی میں ڈوبے کھیتوں کے قریب موجود ہے اور راشن اور خیموں کے منتظر ہیں۔

’مجھ میں ہمت نہیں کہ اپنی دکان کی چابی پھینک دوں‘
عباس احمد کے بارے میں تحریر کے آغاز میں ذکر کیا گیا، جنھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈیرہ مراد جمالی کے ایک گاؤں سے نکالا گیا۔ انھیں وہیں موجود ریلیف کیمپ تک پہنچایا گیا۔
جب وہ جہاز سے اترے تو میں شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کے داخلی دروازے کے پاس بیٹھ گئی۔ ابھی ہیلی کاپٹر کی ری فیولنگ ہو رہی تھی۔
اس دوران عباس احمد میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’باجی جہاز میں کسی افسر یا فوجی کے چپل پڑے ہوں گے؟‘
میں نے انھیں بتایا کہ وہ جہاز کے عملے سے پوچھ سکتے ہیں۔ اسی دوران وہاں موجود ایک افسر نے انھیں اپنے جوتے دینے کا کہا مگر عباس نے انکار کر دیا کہ ’نہیں آپ کے پہنے ہوئے جوتے نہیں اتروا سکتا۔‘
عباس نے بتایا کہ وہ دو ہفتے سے ننگے پاؤں ہیں۔ ’جب رات کو سونے لگتا ہوں تو پاؤں دھو لیتا ہوں۔ پورا دن ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کے پیچھے بھاگتا ہوں کہ کچھ کھانے کو مل جائے کیونکہ بچے بھوکے ہیں۔ روز کھانے کے لیے گندم کے دانے پانی میں اُبال کر دیتا ہوں۔ کتنے ہی دن ہو گئے ہیں بچوں نے روٹی نہیں کھائی۔‘
عباس احمد درزی کا کام کرتے تھے اور حالیہ سیلاب سے ان کا گھر اور دکان دونوں ہی تباہ ہو گئے ہیں۔
وہ اپنے کام کے بارے میں بتا رہے تھے کہ جیب سے ایک چابی نکال لی اور بولے ’یہ میری دکان کی چابی ہے۔ دکان اور سامان، سیلاب اور بارش لے گئے ہیں مگر میرا دل نہیں مانتا کہ یہ چابی پھینک دوں۔ مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں۔ یہ میری روزی روٹی تھی۔‘
عباس احمد اور ان کے کزن کو ایف سی اہلکاروں کے ہمراہ کیمپ میں بھیج دیا گیا۔
وہ ننگے پاؤں ہی خیموں کی طرف چل دیے تاکہ راشن لے کر بچوں کے خیمے تک پہنچ سکیں اور میں انھیں جاتا دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ کل سے ایک بار پھر وہ کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے راستے کھوجتے رہیں گے کہ بچوں کا پیٹ بھر سکیں جبکہ زندہ رہنے کی یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کھیتوں میں پھیلا پانی خشک نہ ہو جائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں