اپنی زندگی کے چار برس یاسمین نے بے یقینی میں گزارے ہیں وہ یہ نہیں جانتیں کہ ان کا تعلق کہاں سے ہے۔
بنگلہ دیش کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونے والی یاسمین میانمار میں اپنے آبائی گاؤں واپس نہیں جا سکتیں۔ اِس وقت انڈیا کے دارالحکومت دلی میں ایک گندا سا کمرہ ان کا گھر ہے۔
لاکھوں روہنگیا لوگوں کی طرح میانمار میں ایک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنی والی یاسمین کے والدین فوج کی طرف سے شروع کی گئی نسل کشی کی مہم سے بچنے کے لیے 2017 میں ملک سے فرار ہوئے تھے۔
اس وقت بہت سے لوگ بنگلہ دیش اور انڈیا جیسے پڑوسی ممالک میں بھاگ گئے، جہاں وہ پناہ گزینوں کے طور پر رہتے ہیں۔
پانچ سال گزرنے کے بعد بھی روہنگیا مسلمان جو اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی بے وطن آبادی ہیں، بدستور اپنے مستقبل سے متعلق فیصلے کے انتظار میں ہیں۔
یاسمین کے والد رحمٰن میانمار میں تاجر تھے۔ جیسے ہی فوج نے لوگوں کو نشانہ بنایا وہ ان 700,000 افراد میں سے ایک بن گئے جو نقل مکانی کر کے اپنی ہی ملک سے بھاگ نکلے۔
کئی دن پیدل چلنے کے بعد، رحمان اور ان کی اہلیہ محمودہ کوکس بازار کے پناہ گزین کیمپ میں پہنچے تھے۔ یہ جنوب مشرقی بنگلہ دیش کا ایک علاقہ ہے جو میانمار کی سرحد کے قریب ہے۔
یہاں یہ جوڑا تنگ دستی میں رہا۔ خوراک کی قلّت عام تھی اور وہ خیراتی اداروں کے راشن سے گزارہ کرتے تھے۔
بنگلہ دیش آنے کے ایک سال بعد یاسمین پیدا ہوئیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کی میانمار واپسی پر زور دے رہی ہے۔
ہزاروں پناہ گزینوں کو بھاسن چار نامی ایک دور دراز جزیرے میں منتقل کر دیا گیا ہے، جسے مہاجرین ایک ’جزیرے پر بنی جیل‘ قرار دیتے ہیں۔
رحمان نے محسوس کیا کہ بنگلہ دیش چھوڑنے سے وہ اپنی بچی کو بہتر مستقبل دے سکیں گے۔
اور یوں 2021 میں، جب یاسمین صرف چند سال کی تھیں، یہ خاندان ہمسایہ ملک انڈیا چلا گیا۔
پناہ گزین تنظیموں کا خیال ہے کہ انڈیا میں 10 ہزار سے 40 ہزار روہنگیا پناہ گزین موجود ہیں۔
برسوں سے روہنگیا یہاں ایک معمول کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن ایک وفاقی وزیر نے اس ماہ ٹویٹ کیا کہ مہاجرین کو رہائش، سہولیات اور پولیس تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ روہنگیا پناہ گزینوں کی دہلی میں موجودگی پھر سے سرخیوں کا حصہ بن گئی۔
اس سے چند گھنٹوں بعد انڈیا کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو یہ سہولیات دینے کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے انھیں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ قرار دے کر کہا کہ انھیں ملک بدر کیا جانا چاہیے یا حراستی مراکز میں بھیجا جانا چاہیے۔
رویّے کی اس واضح تبدیلی نے رحمان کی فیملی جیسے خاندانوں کو اور مایوس کر دیا ہے۔
’میری بچی کا مستقبل تاریک لگ رہا ہے۔‘
بغیر گدے کے لکڑی کے ایک بیڈ پر بیٹھے انھوں نے کہا ’انڈیا کی حکومت بھی ہمیں نہیں چاہتی لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ ہمیں میانمار ڈی پورٹ کرنے کے بجائے مار ڈالیں۔‘
کوئی بھی ملک لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو رکھنے کے لیے تیار نہیں لگتا۔ گذشتہ ہفتے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ کو بتایا کہ ان کے ملک میں موجود پناہ گزینوں کو میانمار واپس جانا ہوگا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ میانمار میں تنازعات کی وجہ سے ایسا کرنا ان کے لیے غیر محفوظ ہے۔ فروری 2021 میں میانمار کی فوج نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔
فوج کے مظالم سے بچنے کے لیے سینکڑوں روہنگیا مسلمانوں نے سمندری راستے سے ملائیشیا اور فلپائن جیسے ممالک کا خطرناک سفر کیا۔
بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پناہ گزینوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے اور ان میں نصف بچے ہیں۔
رحمان کی طرح، کوٹیزہ بیگم بھی اگست 2017 میں میانمار سے فرار ہوئی تھیں۔ وہ تین دن تک بغیر کچھ کھائے پیدل چلتی رہیں۔
وہ اور ان کے تین بچے کاکس بازار کے ایک کیمپ میں ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس چھت کے طور پر پلاسٹک کی چادر ہوتی ہے، جو مون سون کے دوران بارش سے تحفظ بھی نہیں دے پاتی۔
انھوں نے اپنے وطن میں جو کچھ چھوڑا اس کی ہولناک کہانی ان کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔
’فوجی ہمارے گھر میں گھس آئے اور ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ جیسے ہی انھوں نے گولی چلائی، ہم بھاگے۔ بچوں کو دریا میں پھینک دیا گیا۔ وہ راستے میں آنے والے ہر فرد کو مار دیتے رہے۔‘
کیمپوں میں دوسروں کی طرح، کوٹیزا بھی این جی اوز اور خیراتی اداروں کے دیے راشن پر انحصار کرتی ہے، جو اکثر دال اور چاول جیسی بنیادی اشیا تک محدود ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں انھیں وہ کھانا نہیں کھلا سکتی جو وہ چاہتے ہیں، میں انھیں اچھے کپڑے نہیں دے سکتی، میں انھیں مناسب طبی سہولیات نہیں دے سکتی۔‘
کوٹیزا کہتی ہیں کہ وہ بعض اوقات اپنے بچوں کے لکھنے کے لیے قلم خریدنے کے لیے اپنا راشن بیچ دیتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق، بین الاقوامی فنڈنگ میں کٹوتیوں نے ایسی آبادی کے لیے چیلنجوں میں اضافہ کیا ہے جو بقا کے لیے انسانی امداد پر مکمل انحصار کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پناہ گزین کو غذائیت سے بھرپور خوراک، مناسب پناہ گاہ اور صفائی ستھرائی اور کام کرنے کے مواقع حاصل کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔
اپنے بچوں کے لیے کوٹیزا کی اولین ترجیحات میں سے ایک تعلیم بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ایک کھوئی ہوئی نسل جو خدشات کا شکار ہے اور جنھیں اچھی تعلیم نہیں مل رہی۔
کوٹیزا کہتی ہیں کہ ’بچے روزانہ سکول جاتے ہیں، لیکن ان کے لیے کوئی سہولیات نہیں ہیں مجھے نہیں لگتا کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘
کاکس بازار کے کیمپوں میں رہنے والے بچوں کو میانمار کا نصاب پڑھایا جاتا ہے ان کے آبائی ملک کا نصاب وہ نہیں جو بنگلہ دیش کے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
اگرچہ اس پروگرام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد طلبا کو ایک دن ان کے وطن واپسی کے لیے تیار کرنا ہے جبکہ دیگر کو خدشہ ہے کہ یہ روہنگیا پناہ گزینوں کی آبادی کو بنگلہ دیشیوں کے ساتھ ضم ہونے سے روکنے کا ایک طریقہ ہے۔
کوٹیزا کہتی ہیں ’اگر وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں تو وہ خوبصورت زندگی گزار سکتے ہیں۔ وہ اپنے لیے کما سکتے ہیں اور خوشی سے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔‘
یہی احساسات چار سالہ یاسمین کو اپنی بانہوں میں لیے دلی میں بیٹھے رحمان کے بھی ہیں۔
’میں اسے باقاعدہ تعلیم اور بہتر زندگی دینے کا خواب دیکھتا ہوں، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘
ایسے میں جب روہنگیا مسلمانوں کے نسل کشی سے فرار کو پانچ سال ہو رہے ہیں انھیں اب بھی امید ہے کہ انھیں انصاف ملے گا، میانمار کی فوج کے خلاف دائر مقدمہ اب بھی بین الاقوامی عدالت انصاف میں زیر سماعت ہے۔
لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کا خواب ہے کہ وہ گھر واپس جا سکیں۔
جب تک ایسا کرنے کے لیے محفوظ حالات نہیں ہوجاتے رحمان جیسے پناہ گزین دنیا سے مزید مدد اور ہمدردی کی درخواست کر رہے ہیں۔
’میں یہاں چوری کرنے نہیں آیا، میں اپنی جان بچانے آیا ہوں۔‘
رجنی ویدیا ناتھن
بی بی سی، نامہ نگار برائے جنوبی ایشیا
آپ کی رائے