ایران کے شمالی صوبہ گلستان کے ممتاز ترکمن عالم دین ’استاد طہ جان آخوند فروزش‘ 1968ء کو گنبد کاووس میں پیدا ہوئے۔ آپ(رح) ایک علمی اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ والد کا نام استاد عبدالوہاب داغستانی تھا جو خطے کے نامور اور مصلح عالم دین تھے۔ یہ خاندان داغستان سے یہاں آکر آباد ہوا ہے۔ استاد طہ جان فروزش کی والدہ شافعی کْرد ہیں۔
تعلیم
استاد طہ نے پرائمری کی تعلیم ضلع گنبد کے بہرام سکول میں حاصل کیا۔ پھر والد صاحب کے کہنے پر 1979ء کو والد صاحب ہی کے زیر انتظام دینی ادارہ میں داخل ہوئے۔دن رات محنت کے بعد بالاخر آپ(رح) 1992ء میں مدرسہ محمدیہ گنبد کاووس سے فارغ ہوئے۔ ان کے حالات میں آیاہے کہ انہوں نے تعلیم کے سلسلے میں انتھک محنت کی اور سالانہ چھٹیوں میں بھی پڑھتے رہے۔
علمی و سماجی خدمات
شیخ طہ فروزش کے والد استاد عبدالوہاب 1988ء کو گنبد سے ہجرت کرکے ضلع کلالہ کے اورجنلی ٹاون میں منتقل ہوئے۔ اورجنلی آتے ہی آپ(رح) نے اس بستی کی مسجد کی امامت سنبھالی۔ والد کے انتقال کے بعد، استاد طہ فروزش نے ان کی سب دینی ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے ان میں مزید ترقی لائی۔ چنانچہ مسجد کی امامت کے ساتھ ساتھ، تعلیم و تدریس کا سلسلہ آگے بڑھایا۔
استاد طہ فروزش نے 2005ء میں عوام کی حمایت سے اورجنلی میں ایک جامع مسجد اور پھر عیدگاہ تعمیر کرائی۔
شیخ طہ فروزش کی محنتوں کے نتیجے میں اورجنلی دینی مدرسہ کا شمار صوبہ گلستان کے بڑے اور ممتاز دینی مدارس میں ہوتاہے جہاں ایک سو بیس سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور اب تک متعدد علمائے کرام اور حافظانِ قرآن اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ اسی مدرسہ کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے بھی ایک مدرسۃ البنات تعمیر کروائی جاچکی ہے جہاں متعدد خواتین دینی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
تعلیمی و تدریسی خدمات کے علاوہ، مرحوم طہ فروزش سماجی کاموں میں بھی پیش پیش تھے۔ چنانچہ خاندانی تنازعات کے تصفیے میں ان پر مختلف حلقے اعتماد کرتے تھے۔
آپ(رح) جدید مسائل پر گرفت رکھتے تھے اور دینی مسائل اور شبہات کو علمی اور مدلل انداز میں مناسب جواب دیتے تھے۔ اسی لیے علمائے کرام، محققین اور تعلیم یافتہ طبقوں کے لیے قابلِ وثوق تھے۔ استاد طہ آخوند نے متعدد دینی مقالے اور رسالے لکھ کر معاشرے کی خدمت کی۔
مختلف علاقوں کے مسلمانوں سے تعلقات کی وجہ سے استاد فروزش(رح) نے حرمین شریفین کے علاوہ بعض مسلم ممالک کا بھی دورہ کیا۔
بیماری اور سانحہ وفات
شیخ طہ فروزش جگر کی بیماری میں مبتلا تھے اور اسی بیماری کے علاج کے لیے تہران کے ایک اسپتال میں انہیں داخل کرایا گیا تھا۔ دس اگست دوہزار بائیس کو ان کے اہل خانہ کو اطلاع دی گئی کہ شیخ فروزش اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
استاد طہ آخوند کے انتقال پر متعدد علمائے کرام، حکومتی ذمہ داران اور سماجی رہ نماؤں نے تعزیتی پیغام شائع کرتے ہوئے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ان کی نماز جنازہ اورجنلی بستی میں ہزاروں افراد کی موجودی میں ادا کی گئی جہاں انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔
ان کے سوگواروں میں بیوی، ایک بیٹی اور چار بیٹے شامل ہیں۔
آپ کی رائے