جوہری معاہدہ: ایران کا مطالبات تسلیم کرنے پریورپی یونین کی تجاویز قبول کرنے کا عندیہ

جوہری معاہدہ: ایران کا مطالبات تسلیم کرنے پریورپی یونین کی تجاویز قبول کرنے کا عندیہ

ایران کے ایک سینیئر سفارتی عہدیدار نے کہا ہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے اگر ایران کے اہم مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کروائی جائے تو یورپی یونین کی پیش کش قبول کی جاسکتی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ایک سینیئر ایرانی سفارت کار کا حوالہ دیتے یوئے لکھا ہے کہ تہران یورپی یونین کی اس تجویز کا جائزہ لے رہا ہے اور یورپی یونین کی تجاویز قابل قبول ہو سکتی ہیں اگر وہ ایران کو تحفظ، پابندیوں اور ضمانتوں کے معاملات پر یقین دہانی کرائیں۔
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ویانا میں ایران اور امریکا کے درمیان چار دن تک ہونے والے مذاکرات کے بعد انہوں نے حتمی متن آگے بھیج دیا ہے۔
یورپی یونین کے سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ 15 مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے متن میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور انہیں چند ہفتوں میں فریقین سے اس متن پر حتمی فیصلے کی توقع ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں اس بات کی ضمانت دی جائے کہ اگر یہ جوہری معاہدی بحال ہوگیا تو مستقبل میں کوئی بھی امریکی صدر اس معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹے گا، جس طرح سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں معاہدے سے دستبردار ہوگئے اور پھر ایران پر سخت پابندیاں عائد کردیں۔
تاہم، موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن ایران کو اس بات پر مکمل ضمانت نہیں دے سکتے کیونکہ یہ معاہدہ قانونی طور پر پابند معاہدہ کے بجائے ایک سیاسی سمجھوتہ ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ایک عالم نے نماز جمعہ کے خطبے میں کہا کہ تہران نے قابل تصدیق ضمانتیں حاصل کرنے پر اصرار کیا کہ بحال ہونے والے معاہدے کے تحت ایران پر عائد امریکی پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔
مذہبی عالم کاظم صدیقی نے جمعے کے خطبے میں کہا کہ ہم ضروری ضمانتیں حاصل کرنے، پابندیوں کے خاتمے اور تصدیق پر اصرار کرتے ہیں اور اگر یہ طے ہو جاتا ہے تو ہماری مذاکراتی ٹیم لوگوں کو بتائے گی کہ آپ کی مزاحمت اور طاقت کی بدولت پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں۔
دوسری جانب واشنگٹن نے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی میں دلچسپی دکھاتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی تجاویز کی بنیاد پر وہ معاہدے کی بحالی کے لیے جلدی سے معاہدہ کرنے کو تیار ہے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ تہران میں مشورہ کرنے کے بعد وہ اپنے اضافی بیانات اور تجاویز یورپی یونین کو پیش کریں گے۔
خیال رہے کہ 2015 کے جوہری معاہدہ کی بحالی کا معاملہ رواں برس مارچ میں طے ہونا تھا مگر ایران اور امریکا کے درمیان ویانا میں 11 ماہ تک ہونے والے مذاکرات کو معطل کردیا گیا تھا کیونکہ ایران بضد تھا کہ واشنگٹن اس کے پاسداران انقلاب کو امریکا کی بیرونی دہشت گردوں کی فہرست سے نکالے۔
واضح رہے کہ 10 اگست کو امریکا نے ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک رکن پر سابق صدر ٹرمپ انتظامیہ کے دوران قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے جان بولٹن کو قتل کرنے کی سازش کا مقدمہ درج کیا ہے، جس کے حوالے سے واشنگٹن نے بتایا کہ اس کو نہیں لگتا کہ اس مقدمے کا اثر ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری مذاکرات پر پڑے گا۔
2015 کے معاہدے کے تحت ایران نے امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے متنازع یورینیم افزودگی پروگرام کو روک دیا تھا جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ جوہری طاقت صرف امن کے مقصد کے لیے چاہتا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں