لائبیریا میں اسلام

لائبیریا میں اسلام

جمہوریہ لائیبریا، مغربی افریقہ کا ایسا ملک ہے جس کے عوام نے کبھی غلامی قبول نہیں کی۔ اس کے شمال میں ”سیرے لونے“ کا ملک ہے، شمال میں ’گینیا‘ کی ریاست ہے، مشرق میں ’کوٹے‘ کی مملکت ہے اور مغرب اور جنوب میں بحر اوقیانوس کے وسیع و عریض ساحل ہیں۔
ارٹیس ہزار مربع میل (38.250) سے کچھ زائد اس مملکت کا کل رقبہ ہے۔ ”مانروویا“ یہاں کا دارالحکومت ہے۔ 1822ء میں اس شہر کی تاسیس ہوئی، جو اب ریاست کا مرکزی ثقافتی، تجارتی اور سیاسی مرکز ہے۔ ”مانروویا“ کم و بیش پانچ میل کے علاقے میں پھیلا ہوا شہر ہے اور قدیم و جدید عمارات اور افریقی روایات کا حسین اظہار یہاں پر موجود ہے۔ معاشی اور سیاسی لحاظ سے لائیبریا یا خطے کی ایک اہم ریاست ہے، چنانچہ یہ ملک اپنے خطے کی دو بڑی علاقائی تعاون کی تنظیموں کا رکن بھی ہے، مانوریور یونین اور اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن اسٹیٹس۔ معلوم تاریخ کی حد تک شمالی وسطی افریقہ سے آئے ہوئے قبائل نے تیرہویں صدی میں اس سرزمین کو سب سے پہلے آباد کیا۔ اگرچہ اس سے قبل کی تاریخ بھی تفصیل سے موجود ہے، لیکن بالخصوص اس علاقے کے بارے میں کوئی بہت زیادہ تفصیلات موجود نہیں، تاہم مجموعی طور پر افریقہ یا مغربی افریقہ کے بارے میں تاریخ کے صفحات بلاشبہ بھرے پڑے ہیں۔ لائبیریا کی تاریخ میں زیادہ اہم کردار باہر سے آنے والوں نے ہی ہمیشہ ادا کیا ہے۔ ویسٹ انڈیز، امریکا اور پڑوسی افریقی ممالک کے بھی بے شمار لوگ یہاں پر آئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سمندر کے پڑوس کے باعث یہاں پر پہنچنا بہت آسان تھا۔ اس وقت کم و بیش دو ہزار دیہاتی بستیاں اس ملک میں آباد ہیں جو زیادہ تر ساحلی علاقوں میں اور دارالحکومت کے قریب قریب ہیں، اتنی کثرت سے دیہاتی بستیوں کے باعث لائبیریا میں شہری اور جدید طرز زندگی اور دوسری طرف دیہاتی اور قدیم روایتی طرز زندگی کا خوبصورت سنگم نظر آتا ہے۔
لائبیریا کی آبادی میں عمومی طور پر تین طرح کے گروہ واضح طور پر نظر آتے ہیں، ایک تو مہاجرین ہیں جو حالات کا شکار ہو کر پر امن ملک میں پناہ گزین ہوگئے۔ دوسرے افریقی ہیں جو اس ملک کے ساتھ ساتھ دوسرے افریقی علاقوں سے بھی آئے ہیں اور نسلوں سے یہاں آباد ہیں اور اس دوسرے گروہ کی اکثریت پائی جاتی ہے، جبکہ تیسرے گروہ کے طور پر یورپی اور امریکی باشندے ہیں جو اب اس ملک کی تہذیب میں رچ بس چکے ہیں۔ ان کی اکثریت نے یہاں شادیاں بھی کرلی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک ایسی نسل پروان چڑھ چکی ہے جس کی رگوں میں گورا اور کالا دونوں خون شامل ہیں۔ ”امریکولائبیرین“ اس نسل کا نام رکھا گیا ہے، جس کے بارے میں یورپی مورخین دعوی کرتے ہیں کہ جدید لائبیریا کی تاسیس اسی نسل کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے؟ یہ تو مقامی لوگ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں، لیکن بہر حال یورپی مورخین کی کذب بیانی، دروغ گوئی، نسل پرستی اور جانب داری سے تاریخ کے صفحات کالے ہوچکے ہیں۔ اس ”امریکولائبیرین“ کی نسل کے لوگ 1820ء سے 1865ء کے دوران تک یہاں وارد ہوتے رہے اور گزشتہ صدی کے آخر تک یہی لوگ جنہیں مقامی ہونے کا دعوی بھی ہے، حکومت کے ایوانوں پر بھی قابض رہے، یہاں تک کہ 1980ء میں فوجی انقلاب اس ملک میں آگیا اور ان ”امریکولائبیرین“ کی حکومت ختم ہو گئی۔
لائبیریا میں سولہ بڑے بڑے قبائلی گروہ قیام پذیر ہیں، جن کے درمیان تین بڑی بڑی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ”وائی“ نسل کے قبائل نے اپنی زبان میں عربی کے حروف ابجد بھی داخل کر رکھے ہیں۔ اس ملک کے لوگوں میں مذہب کے ساتھ وابستگی کافی حد تک موجود ہیں۔ بیس فیصد عیسائی اور پچیس فیصد مسلمان ہیں، جب کہ باقی آبادی مقامی قدیمی افریقی مذاہب کی پابندی کرتی ہے۔
لائبیریا کی معیشت کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہی ہے اور بنیادی طور پر یہ ایک ترقی پذیر ملک ہے اور جملہ ضروریات کی دیگر اشیاء یہاں پر باہر کے ملکوں سے درآمد کی جاتی ہیں۔ ربر، جنگلات کی لکڑی اور کانوں سے نکالی گئی اشیاء زر مبادلہ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ یہاں اگرچہ صنعتوں کو قومیانے کا رواج نہیں ہے اور نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، لیکن پھر بھی حکومت ہی سب سے بڑا ملازمتیں دینے والا ادارہ ہے اورمتعدد کا رپوریشنز بھی حکومت ہی کی زیر نگرانی چلتی ہیں۔ ملک کی ستر فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور باقی لوگ صنعتوں، مارکیٹنگ اور انتظامی اداروں سے اپنا روزگار حاصل کرتے ہیں۔ زراعت میں بہت بڑا کردار خواتین کا بھی ہے، جو ملک کے کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں، لیکن یہاں کچھ فرق ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کی خواتین شوق کے باعث اور ”گھر کی گھٹن“ کے باعث باہر نکلتی ہیں، جبکہ افریقی ممالک میں معاملہ بالکل مختلف ہے اور یہاں پر غربت دھکے دے کر عورت کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کرتی ہے۔
لائبیریا ”فولاد“ کے معاملے میں دنیا کا خوش قسمت ترین ملک ہے۔ یہ دھات یہاں بہت کثرت سے پائی جاتی ہے اور دنیا بھر میں لوہا برآمد کرنے والے ممالک میں لائبیریا سرفہرست ہے۔گریفائٹ، سونا، قلعی، ہیروں سمیت متعدد مزید معدنیات بھی اس ملک کہ تہوں میں قدرت نے دبا رکھی ہیں اور ماضی قریب میں تیل کے بھی بہت بڑے ذخائر کا پتہ لگایا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود بھی زراعت پر ہی قوم کا دار و مدار ہے۔ ملک کی نصف زمین قابل کاشت ہے، لیکن بمشکل پانچ فیصد زمین پر کاشت کاری کی جاتی ہے۔ بڑے بڑے زراعتی فارم غیرملکیوں کی زیرنگرانی چلائے جاتے ہیں، جبکہ مقامی لوگ روایتی طریقوں سے ہی کاشت کاری کرتے ہیں۔ گنا، چاول، مونگ پھلی اور کپاس یہاں کی نقد آور فصلیں ہیں۔
1984ء میں یہاں پر سیاسی پارٹیوں کو آزادی دی گئی اور 1986ء سے یہاں دستور نافذ ہے جس کے مطابق ملک کا سیاسی نظام زیادہ تر صدارتی طرز پر بنیاد کرتا ہے، صدر کو چھ سالوں کے لیے براہ راست منتخب کیا جاتا ہے۔ قانون سازی کے لیے دو ایوان ہیں، قومی اسمبلی کے اراکین کو چھ سالوں کے لیے قوم منتخب کرتی ہے، جبکہ سینٹ کے اراکین کی مدت انتخاب نو سال تک طویل ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ اور ماتحت عدالتوں پر مشتمل عدالتی نظام قوم کو انصاف فراہم کرنے کا پابند ہے، تا ہم مقامی قبائل کے سرداروں کے ہاتھوں کے گئے پنچائتی فیصلوں کو بھی یہاں کی عدالتوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ملک کو پندرہ انتظامی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جو اپنے اپنے ”سپرنٹنڈنٹ“ کے تحت اپنا ریاستی نظام چلاتے ہیں، یہ ’سپرنٹنڈنٹ‘ صدر مملکت کی طرف سے نامزد کیے جاتے ہیں۔
لائبیریا کے مسلمان یہاں کی چار سو سالہ عظیم اور شاندار تاریخ کے امین ہیں۔ مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور ایک حد تک فوجی طاقت بھی ہیں۔ غربت اور جہالت یہاں کے مسلمان قبائل کے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ اب تک صرف ایک ہی تین منزلہ اسکول ہے جو مسلم ورلڈ لیگ نے قرآن کی تعلیم کے لیے بنایا ہے، جبکہ مسلمانوں کا تا دم تحریر کوئی اسپتال نہیں ہے۔ دارالحکومت کے پندرہ ہزار مسلمانوں کے لیے صرف پانچ مساجد ہیں۔ اگرچہ حکومت نے ماضی میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیے رکھا ہے، لیکن اب ہمسایہ مسلمان ممالک اور بین الاقوامی مسلمان تنظیموں کی توجہ سے یہاں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ان دنوں وہاں پر ائمہ کی تربیت کے لیے نئے ادارے وجود میں آئے ہیں اور مسلمان تنظیموں نے مسلمانوں کی معاشی ابتری دور کرنے کے لیے بھی خاطر خواہ اور ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے بیرونی مسلمانوں کی مالی مدد سے لائبیریا کے مسلمان باشندے حج پر بھی جانا شروع ہوگئے ہیں۔ وہاں کی حکومت نے اب ایک مجلس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں تمام مذاہب کی نمائندگی ہوگی اور وہ صدر مملکت کو حالات میں بہتری کے لیے مشورہ دینے کی پابند ہوگی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں