راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی بس کا حادثہ: ‘علاؤالدین عید منانے گھر آ رہے تھے‘

راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی بس کا حادثہ: ‘علاؤالدین عید منانے گھر آ رہے تھے‘

‘میرے چچازاد بھائی اور اس سے بڑھ کر میرے دوست عید منانے کے لیے اسلام آباد سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے تھے لیکن شیرانی کے قریب بس کے حادثے کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے ہیں‘۔
یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع زیارت سے تعلق رکھنے والے منصور احمد کاکڑ کا جن کے چچا زاد بھائی علاﺅالدین بھی اس بس میں سفر کررہے تھے جسے اتوار کے روز ضلع شیرانی کے قریب خیبر پختونخوا کے علاقے میں حادثہ پیش آیا۔
منصور احمد نے بتایا کہ میں کوئٹہ ‘میں چچازاد بھائی کاانتظار کررہا تھا کیونکہ پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق ہم دونوں کواکٹھے کوئٹہ سے اپنے آبائی علاقے زیارت جانا تھا۔‘
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ژوب ڈاکٹر مظفر کے مطابق اس حادثے میں 20 افراد ہلاک اور 12 زخمی ہوئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر شیرانی کا کہنا ہے کہ حادثے کے باعث بس گہری کھائی میں جاکر گرگئی جس کے نتیجے میں زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ علاﺅالدین کی طرح ہلاک اور زخمی ہونے والے زیادہ تر دیگر افراد کا تعلق بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔
بس کمپنی کے مطابق بس میں سوار اکثریت طالب علموں اور افغان شہریوں کی تھی۔ طالب علم تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کے سبب اپنے آبائی علاقوں کو جارہے تھے جبکہ افغان شہری واپس افغانستان جارہے تھے۔ دونوں ڈرائیورز اور کنڈکٹرز کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی سے ہے۔

علاﺅالدین کون تھے؟
علاﺅالدین کا تعلق بلوچستان کے علاقے زیارت سے تھا اور ان کی عمر 28سال تھی۔ وہ طالب علم تھے اور اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔
علاﺅالدین اسلامی یونیورسٹی میں شریعہ اینڈ لا کے فائنل ائیر کے طالب علم تھے۔
ان کے چچازاد بھائی منصور احمد کاکڑ نے فون پر بی بی سے کوبتایا کہ وہ بی اے تک ان کے کلاس فیلو بھی رہے اور بی اے کے بعد انھوں نے شریعہ اینڈ لا میں ایل ایل بی کرنے کے لیے اسلامک یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چند روز قبل علاﺅالدین کی بھابی وفات پاگئی تھیں لیکن چونکہ ان کے امتحانات چل رہے تھے جس کی وجہ سے وہ گھر نہیں آسکے۔
منصوراحمد نے بتایا کہ علاﺅالدین نہ صرف ان کے چچا زاد بھائی تھے بلکہ اس سے زیادہ قریبی دوست تھے۔
‘میرے چچا زاد بھائی ایک بہت مہربان قسم کے انسان تھے اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں’۔
ان کا کہنا تھا کہ دو روز قبل ان کا مجھے فون آیا تھا اور مجھے بتایا تھا کہ آپ زیارت نہ جائیں اور وہ جب کوئٹہ پہنچیں گے تو وہاں سے اکھٹے زیارت جائیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ میں آج ان کے انتظار میں تھا کہ وہ جب صبح پہنچیں گے تو وہ اور میں یہاں سے اکھٹے زیارت جائیں گے لیکن اس المناک واقعے نے اس کا موقع نہیں آنے دیا بلکہ وہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
انھوں نے کہا کہ دوست اور چچازاد بھائی کے اچانک بچھڑجانے کا صدمہ بہت زیادہ ہے اور یہ صدمہ اتنا گہرا ہے کہ اس کو بیان کرنے کے لیے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔

یہ حادثہ کیسے پیش آیا؟
ڈپٹی کمشنر شیرانی اعجاز احمد نے بتایا کہ بدقسمت مسافر بس روالپنڈی سے براستہ ژوب دانہ سر روٹ کوئٹہ کے لیے آرہی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ بس میں 33 مسافر تھے اور بس کو رات کو دانہ سر کے قریب خیبر پختونخوا کے علاقے میں حادثہ پیش آیا، جس کی وجہ سے وہ گہری کھائی میں جاکر گری۔
ان کا کہنا تھا کہ گہری کھائی میں گرنے کی وجہ سے حادثے میں ہلاکتیں زیادہ ہوئیں۔
انھوں نے بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنر شیرانی، انتظامیہ، پولیس اور ریکسیو 1122 کے اہلکار لاشوں کو نکالنے اور زخمیوں کو ریسکیو کرنے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے۔
دریں اثنا جائے وقوعہ سے اسسٹنٹ کمشنر شیرانی مہتاب شاہ نے فون پر بتایا کہ بس کو حادثہ شاید رات کو ایک بجے کے بعد پیش آیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ علاقے میں بارش بھی ہوئی تھی لیکن تاحال اس بات کا تعین نہیں ہوسکا کہ بس پھسلن کی وجہ سے گہری کھائی میں جاگری یا اس کی کوئی اور وجہ ہے۔
‘انھوں نے کہا کہ زخمیوں کی حالت ایسی نہیں تھی کہ ان سے حادثے کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کی جاسکتی اس لیے فوری طور پر حادثے کی وجوہات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاسکتا’۔
مہتاب شاہ کا کہنا تھا کہ جس کھائی میں بس جاکر گری ہے اس کی گہرائی اندازاً دو سو فٹ سے زیادہ ہے جبکہ اس کے ساتھ بڑے بڑے پتھر بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں کوئی بچہ یا خاتون نہیں تھیں بلکہ سارے نوجوان اور بڑی عمر کے مرد تھے۔
ڈاکٹر مظفر نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے افراد میں سے پانچ افراد کی لاشیں اب تک ژوب ہسپتال پہنچائی گئی ہیں جبکہ زخمیوں کو مختلف علاقوں میں طبی امداد کی فراہمی کے بعد کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔
اس واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو ویڈیو گردش کررہی ہے اس میں میں بس روڈ سے دور ایک گہری کھائی میں پڑی ہے جبکہ اس میں سوار مختلف مسافروں کی لاشیں بس کے قریب زمین پر پڑی دکھائی دے رہی ہیں۔
صحافی محمد زبیر خان کے مطابق راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی یہ بس سپر سدا بہار کوچ کمپنی تھی۔ اس کمپنی کے دو ڈرائیورز اور کنڈکٹر بھی شامل ہیں۔
اس مسافر بس میں 33 افراد سوار تھے۔ زخمیوں اور لاشوں کو ژوب اور قریب کے علاقوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ سپر سدا بہار کپمنی کے مطابق دانہ سر کا علاقہ پہاڑی علاقہ ہے جہاں پر بارش کے دوران پھسلن پیدا ہوجاتی ہے۔
حادثے کے مقام سے منظر عام پر آنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بس سڑک سے کافی گہرائی میں ایک کھائی میں جا کر گری جس کی وجہ سے اموات کی تعداد زیادہ ہوئی۔
امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے ایک ریسکیو اہلکار کے مطابق بس کافی بلندی سے نیچے گری تھی اور حادثہ جس وقت پیش آیا اس وقت کسی حد تک اندھیرا تھا جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو بھی جائے مقام پر پہنچنے میں مشکلات پیش آئی تھیں۔
ریسکیو اہلکار کے مطابق زخمیوں اور لاشوں کو سڑک تک پہنچانے کا آپریشن کوئی پانچ گھنٹے تک جاری رہا تھا۔ واضح رہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے میں بارشوں کی وجہ سے دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی بھی آئی ہوئی ہے۔
ریسکیو 1122 ڈیرہ اسماعیل خان کے مطابق لاشوں کو گہری کھائی سے نکالنے کا کام ابھی مکمل ہوا ہے جن کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ کچھ لاشوں کی شناخت ہوچکی ہے جبکہ کچھ کی شناخت کا عمل ہسپتالوں میں جاری ہے۔
ژوب سول ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر نور الحق کے مطابق ان کے پاس کم از کم 11 زخمی افراد لائے گے ہیں جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔
ریسکیو اہلکار کے مطابق بارشوں میں اس مخصوص سڑک پر اکثر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔
لیکن انھوں نے کہا کہ ’یہ حادثہ اپنی نوعیت کا بڑا حادثہ ہے۔ میری سروس کے تین سال کے دوران اس روڈ پر کسی حادثے میں اتنی زیادہ انسانی جانیں ضائع نہیں ہوئیں۔‘

ایک ماہ کے دوران دوسرا بڑا حادثہ
بلوچستان کے ضلع شیرانی کے قریب خیبر پختونخوا کے علاقے میں بلوچستان آنے والی مسافر بس کو پیش آنے والا واقعہ ایک مہینے کے دوران ہلاکتوں کے حوالے سے دوسرا بڑا واقعہ ہے۔
اس سے قبل شیرانی سے متصل ضلع ژوب کے قریب قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں ایک منی مسافر وین کو 8 جون کوحادثہ پیش آیا تھا۔
لورالائی سے ژوب جانے والی مسافر وین بھی پہاڑی علاقے سے گہری کھائی میں جاکر گری تھی جس کے باعث بس میں سوار تمام کے تمام 23افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اگرچہ اتوار کو پیش آنے والا واقعہ خیبر پختونخوا میں پیش آیا لیکن بلوچستان میں ٹریفک حادثات کی شرح بہت زیادہ ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ٹرانسپورٹرز اور عام لوگ شاہراہوں کے سنگل ٹریک کو قرار دے رہی ہیں۔
یہ ٹریفک حادثات زیادہ تر کوئٹہ اور کراچی کے درمیان ہائی وے پر پیش آتے ہیں، جس کی وجہ سے اسے خونی شاہراہ کا نام دیا گیا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں