طالبان سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی پہلی مرتبہ کابل آمد، اجلاس میں شرکت

طالبان سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی پہلی مرتبہ کابل آمد، اجلاس میں شرکت

افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ گزشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار ملک کے دارالحکومت کابل میں پہنچے اور ایک اجلاس میں شرکت کی۔
افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزاہ جن کی طالبان کی واپسی کے بعد سے عوامی اجتماع میں شرکت کی کوئی تصویر سامنے نہیں آئی تاہم انہوں نے کابل میں مذہبی اسکالرز اور قبائلی عمائدین کے ایک بڑے اجلاس کے دوسرے روز شرکت کی اور خطاب کیا، جہاں اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
منتظمین کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے 3 ہزار اسکالرز اور بااثر شخصیات اس جرگے میں شامل ہوئے ہیں جو کہ 2 جولائی تک جاری رہے گا۔
طالبان کے سربراہ نے پشتو زبان میں اپنی تقریر میں حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک میں مکمل اسلامی نظام نافذ کریں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی نظام کا قیام نہ صرف افغانستان کے شہریوں کے لیے بلکہ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اچھی خبر ہے اور ہمیں پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔
ملا ہیبت اللہ نے کہا کہ ملک پر قابض بیرونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے دوران افغان عوام کو نشانہ بنانا کبھی بھی طالبان کا مقصد نہیں رہا مگر وہ افغان شہری جو غیر ملکی قابض قوتوں کو معاونت فراہم کرتے رہے ان کے لیے ہمارے پاس سوائے لڑنے کے کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
طالبان کے سربراہ نے کہا کہ جب امریکی افغانستان سے نکلے تو ہم نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور انہیں اطلاع دی کہ طالبان کے خلاف ان کی بربریت کے باوجود انہیں معاف کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے عہدیداروں پر زور دیا کہ وہ تمام سرکاری محکموں میں بدعنوانی کا خاتمہ کریں اور جانب داری اور دوستی کی بنیاد پر عہدے دینے سے گریز کریں۔
ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا کہ اگر اس طرح کی برائیاں ہماری حکومت کا حصہ ہیں تو یہ اس جدوجہد کے بلکل برعکس ہو گی جو ہم نے اسلامی نظام کے قیام کے لیے کی تھی۔
انہوں نے امارت اسلامیہ کی پالیسیوں کا مزید دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عالمی برادری کی جانب سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم اسلامی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد شروع کریں گے تو ہماری حکومت کی مخالفت مزید بڑھے گی۔
قبل ازیں، اجتماع میں مقررین نے بیرونی اور اندرونی چیلنجز کے باوجود اپنے ملک کا دفاع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

اب اسلامی نظام قائم ہو چکا ہے، ہمیں اسے مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے

افغانستان کی سرکاری خبر ایجنسی نے افغان وزیر اعظم ملا حسن کے حوالے سے جاری بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نے خطاب میں شرکا پر زور دیا کہ وہ ان لوگوں سے سوال کریں جو اسلامی نظام کے خلاف ہیں اور کہا کہ اب اسلامی نظام قائم ہو چکا ہے، ہمیں اس سے مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے شرکا سے کہا کہ آپ لوگ اچھی طرح واقف ہیں کہ اسلامی نظام کے تحت طالبان سے لڑنے والے تمام لوگوں کو معاف کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ بیرون ملک بیٹھ کر ہمارے ملک کے خلاف مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
دریں اثنا افغانستان کے وزیر دفاع ملا یعقوب نے کچھ مسائل کے حل کے لیے شرکا سے مذہبی فرمان طلب کیا۔
انہوں نے علمائے کرام سے کہا کہ وہ اسلامی شریعت کے نفاذ میں خرابیوں کی نشاندہی کریں اور ان پر ان مسائل کا حل تجویز کرنے پر زور دیا۔
ملا یعقوب نے مزید کہا کہ نہ تو کسی اسلامی اور نہ ہی کسی غیر اسلامی ملک نے ہمارے نظام کو تسلیم کیا ہے اس لیے ہمیں مشورہ دیں کہ ایسی خارجہ پالیسی کیسے بنائی جائے جس سے ہماری حکومت کو تسلیم کیا جائے۔

طالبان کا کمپاؤنڈ پر حملہ، تین ہلاک
طالبان کی سکیورٹی فورسز نے آج کابل میں ایک کمپاؤنڈ پر چھاپہ مار کر تین افراد کو ہلاک کر دیا۔
طالبان حکام نےکہا ہے کہ مسلح افراد کانفرنس کے شرکا پر فائرنگ کرنا چاہتے تھے اور طالبان نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں ایک گھر کے مختلف حصوں میں تین لاشیں دکھائی گئی ہیں۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس عمل کو ’چھوٹا‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ جب سیکیورٹی فورسز نے مشتبہ افرادپر فائرنگ کی تو اس واقعے سے اجلاس میں خلل نہیں پڑا اور کہا کہ حملہ آوروں نے چھاپہ مار فورسز پر دستی بم پھینکا لیکن کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوا۔
دوسری جانب سفارتی ذرائع نے بتایا کہ دو سے تین راکٹ گرینڈ اجلاس کے مقام کی طرف فائر کیے گئے تھے جن میں سے ایک پولی ٹیکنیکل اسکول کے قریب گرا جہاں مہمان مقیم تھے جبکہ جائے وقوع کے قریب فائرنگ کے تبادلے کی بھی اطلاع ملی تھی۔
بعد ازاں سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز سامنے آئیں جن میں شدید فائرنگ کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔
اس دوران، جہاں اجلاس ہو رہا تھا وہاں مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کو ’لویا جرگہ‘ کے خیمے تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی مگر صرف افغان سرکاری ٹی وی، ریڈیو، اور سوشل میڈیا پر تقریروں کی آڈیو نشر کی گئی تاہم اس کانفرنس کی تصاویر یا ویڈیوز میڈیا کو جاری نہیں کی گئیں۔

خواتین سے متعلق پالیسیاں
گزشتہ برس اگست میں اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان نے تیزی سے ملک میں دی گئی آزادیوں کو منسوخ کردیا ہے جن میں خاص طور پر خواتین کو نوکری اور لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم سے روکنا شامل ہے۔
اقوام متحدہ اور امریکا سمیت متعدد ممالک نے افغان طالبان کی ایسی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور طالبان حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان پالیسیوں اور طریقوں کو جلدی سے تبدیل کریں جس سے افغان خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادی محدود ہو رہی ہے۔
رواں سال مئی میں طالبان سربراہ نے ملک کی خواتین کو حکم دیا تھا کہ وہ عوامی مقامات میں جانے سے قبل خود کو برقعے سے مکمل ڈھانپ لیں اور انہیں یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ وہ سر سے پاؤں تک چادر پہنیں کیونکہ یہ روایتی اور احترام کا باعث ہے۔
طالبان نے ملک میں متعدد دیگر پابندیوں کا بھی اعلان کیا ہے جن میں افغانستان کے ٹیلی ویژن چینلز کو خواتین اداکاراؤں پر مشتمل ڈرامے اور سوپ اوپیرا دکھانے سے منع کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال، طالبان حکام نے کہا تھا کہ جو خواتین مختصر فاصلے کے علاوہ طویل سفر کا ارادہ رکھتی ہیں انہیں اس وقت تک ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں کی جانی چاہیے جب تک کہ ان کے ساتھ کوئی قریبی مرد رشتہ دار ساتھ نہ ہو۔
وزارت دعوت و ارشاد کی جانب سے جاری ہدایات میں گاڑیوں کے مالکان سے کہا گیا تھا کہ وہ صرف باحجاب خواتین کو گاڑی میں سفر کرنے کی پیش کش کریں۔
افغان حکومت نے نہ صرف یہ بلکہ ملک میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بھی بند کر دیے ہیں۔
بین الاقوامی برادری نے طالبان حکومت کو مالی امداد جاری کرنے اور حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے خواتین کو تعلیم کا حق دینے کا نکتہ شامل کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی کئی ممالک اور سماجی تنظیموں نے افغان اساتذہ کو تنخواہ فراہم کرنے کی پیش کش بھی کی تھی۔
اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کے حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے جمعے کو طالبان پر زور دیا کہ وہ خواتین کے حقوق کو بہتر بنانے اور ان کے خلاف ’منظم جبر‘ کو ختم کرنے کے لیے دیگر مسلم ممالک کا جائزہ لیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا تھا کہ میں عبوری حکام پر زور دیتی ہوں کہ وہ پہلے سے ہی خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو فروغ دینے کا تجربہ رکھنے والے مسلم ممالک کے ساتھ روابط رکھیں، جیسا کہ مذہبی تناظر میں بین الاقوامی قانون میں اس کی ضمانت دی گئی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں