افغان شہری 15سال بعد بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل سے رہا

افغان شہری 15سال بعد بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل سے رہا

کیوبا میں گوانتا ناموبے کے امریکی حراستی مرکز میں قید آخری افغان قیدیوں میں سے ایک کو واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کر کے 15 سال بعد رہا کر دیا گیا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق خفیہ جیل میں سیکڑوں مشتبہ عسکریت پسندوں کو رکھا گیا تھا جنہیں امریکی افواج نے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران پکڑا تھا، ان میں سے اکثر کو بغیر کسی الزام کے رکھا گیا تھا اور انہیں حراست کو چیلنج کرنے کا قانونی اختیار حاصل نہیں تھا۔
امریکی حکام کو اس جیل میں قیدیوں پر تشدد اور بدسلوکی کے الزامات کا سامنا رہا ہے جن میں سے کچھ قیدیوں کو مبینہ طور پر پنجروں میں رکھا گیا اور تفتیش کے غیرقانونی طریقوں کا نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران زیادہ تر قیدیوں کو رہا کیا جا چکا ہے جن میں طالبان کے سینئر رہنما بھی شامل ہیں لیکن اسد اللہ ہارون کو بغیر کسی الزام کے لاپتا کردیا گیا تھا۔
پاکستان کے شہر پشاور میں افغان مہاجرین کے طور پر رہنے والے ان کے بھائی رومان خان نے کہا کہ میرے بھائی پر لگائے گئے الزامات جھوٹے تھے اور رہائی نے ثابت کر دیا کہ وہ بے گناہ تھا لیکن ان کی زندگی کے وہ سال کون واپس کرے گا؟۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ہارون کی آزادی کی اطلاع جمعہ کی صبح دی گئی۔
رومان خان نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہمارے گھر میں عید اور شادی کی طرح ہے، یہ ہمارے لیے بہت جذباتی لمحات ہیں۔
اسد اللہ کی عمر تقریباً 40 سال بتائی جاتی ہے اور وہ اب قطر میں ہیں، انہیں امریکی افواج نے 2006 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان شہد کے تاجر کے طور پر سفر کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
امریکی حکومت نے انہیں 2007 میں گوانتاناموبے منتقل کر دیا تھا، ان پر الزام لگایا کہ وہ القاعدہ سے منسلک ایک کوریئر تھے اور ایک اور عسکریت پسند گروپ حزب اسلامی کے ساتھ کمانڈر کے طور پر کام کر رہے تھے۔

بدترین تشدد
اکتوبر 2021 میں اپنے وکلا کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے ہارون نے جیل میں گزرنے والے حالات بیان کیے تھے۔
جمعہ کو ان کے وکلا کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں گزشتہ 14 سالوں سے غیر قانونی طور پر موجود ہوں، مجھ پر کبھی الزام نہیں لگایا گیا، مجھے کبھی بھی کسی جرم کا مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔
اسد کا کہنا تھا کہ میں اب بہت کمزور ہوں، میری عمر 38 سال ہو چکی ہے لیکن میں خود کو لگ بھگ 60 سال کا محسوس کر رہا ہوں، میں برسوں سے جسمانی اور ذہنی طور پر تکلیف اٹھا رہا ہوں۔
ان کے وکلا نے کہا کہ ہارون کی رہائی سخت جدوجہد کے بعد عمل میں آئی۔
انہوں نے بیان میں کہا کہ اسد اللہ کو حراست کے دوران شدید جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی گئی ہیں جن میں مارا پیٹا جانا، اس کی کلائیوں سے لٹکایا جانا، کھانے اور پانی سے محروم کرنا اور نماز پڑھنے سے روکنا شامل ہے، انہیں نیند کی کمی کے ساتھ ساتھ انتہائی سرد درجہ حرارت اور قید تنہائی کا نشانہ بنایا گیا۔
1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے دوران پاکستان فرار ہونے والے ان کے خاندان نے تسلیم کیا کہ وہ اپنے پناہ گزین کیمپ میں موجود بہت سے لوگوں کی طرح حزب اسلامی کے رکن تھے، لیکن اس کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ اسداللہ کی رہائی طالبان اور واشنگٹن کے درمیان براہ راست اور مثبت مذاکرات کے بعد عمل میں آئی۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے کہا کہ اب جب کہ اسے رہا کر دیا گیا ہے، طالبان کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسد امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ’خطرہ نہ بنیں‘۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اسد اللہ گوانتاناموبے میں باقی دو افغان قیدیوں میں سے ایک ہیں۔
دوسرے قیدی محمد رحیم ہیں جن پر سی آئی اے نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کا قریبی ساتھی ہونے کا الزام لگایا ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا کہ حکومت کو امید ہے کہ رحیم کو بھی جلد رہا کر دیا جائے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ قیدیوں کی تعداد میں کمی اور بالآخر گوانتاناموبے کو بند کرنے کے لیے کام کر رہی ہے جو کیوبا کے جزیرے پر واقع ہے لیکن امریکی دائرہ اختیار میں ہے۔
پینٹاگون نے اپریل میں کہا تھا کہ اس وسیع و عریض مرکز میں 37 قیدی موجود ہیں۔
ہارون کی رہائی کے بعد امریکن سول لبرٹیز یونین نے ایک بیان میں کہا کہ گوانتاناموبے فوجی جیل امریکی ناانصافی، تشدد اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی عالمی علامت ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں