خطیب اہل سنت زاہدان نے سترہ جون دوہزار بائیس کے خطبہ جمعہ میں ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے بین الاقوامی مذاکرات میں تعطل اور سست روی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جانبین کو نرمی اور لچک دکھانے کی دعوت دی۔
مولانا عبدالحمید نے زاہدان کے مرکزی اجتماع برائے نماز جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: جوہری مذاکرات میں تعطل اور جنگ کے منڈلاتے سایے نے سب کو پریشان کردیا ہے۔ یہ خطرہ اور پریشانی پائی جاتی ہے کہ کہیں ایک اور جنگ خطے میں چھیڑ نہ جائے جو پوری دنیا کے لیے خطرناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یوکرین جنگ میں روسی حکام اور تجزیہ کاروں کے غلط تجزیوں کی وجہ سے روس کے وسائل بھی تباہ ہوئے اور روس و یوکرین کو بھاری جانی و مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑا۔ اس جنگ کے منفی اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوئی۔ امریکا اور نیٹو کی افغانستان پر یلغار اور عراق پر امریکی حملہ بھی ایک ایسی ہی جنگ اور غلطی کی مثالیں تھیں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: اگر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان کوئی جنگ واقع ہوجائے، جانبین کی طاقت کو سامنے رکھ کر یوں نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ یہ انتہائی تباہ کن لڑائی ہوگی اور پورا مشرق وسطی اس کی لپیٹ میں آسکتاہے۔ ایسی جنگ کا وقوع ہرگز سمجھدارانہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: عقل مندی کا تقاضا ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر اکٹھے ہوجائیں اور سب نرمی اور اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کریں۔ ایران کے حکام بھی جنگ کے خطرے کو ٹالنے اور کشیدگی کم کرنے کے لیے مزید لچک دکھائیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: جوہری مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا پورا خطہ اور دنیا کے عین مفاد میں ہے۔ یہ خطہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ پہلے ہی سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے۔ سب کو چاہیے ایک تباہ کن جنگ روکنے کے لیے محنت کریں۔
انہوں نے ایران پر عائد پابندیوں کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہوئے کہا: ایران کے خلاف پابندیوں کو بڑھانے کے بجائے ان کا خاتمہ دینا ضروری ہے۔ ایران کی آبادی آٹھ کروڑ سے زائد ہے۔ پابندی لگانے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ عوام پر پڑتے ہیں۔
مولانا نے اپنے نکات کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا: معاشی پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی شروع ہی سے ایک غلط پالیسی تھی اور ان پابندیوں کو مذاکرات سے ختم کرنا چاہیے۔
آپ کی رائے