عمران خان کے ’حقیقی آزادی مارچ‘ کی ناکامی یا کامیابی عمران خان کی سیاست پر کیا اثرات ڈالے گی؟

عمران خان کے ’حقیقی آزادی مارچ‘ کی ناکامی یا کامیابی عمران خان کی سیاست پر کیا اثرات ڈالے گی؟

پاکستان میں سیاسی سطح پر تو مارچ میں تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ہی بھونچال آ گیا تھا لیکن مئی میں پڑنے والی غیرمعمولی گرمی میں ملک کا سیاسی درجی حرارت بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریکِ انصاف مختلف شہروں میں جلسوں کے بعد آج صوبہ خیبرپختونخوا سے لانگ مارچ کا آغاز کر رہی ہے۔
لیکن لانگ مارچ کا اعلان جس طریقے سے کیا گیا، وہ بھی اپنی جگہ ایک اہم نقطہ ہے۔ پہلے ملتان کے جلسے میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا جانا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا اور یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ پی ٹی آئی شاید اس فیصلے پر نظر ثانی کر رہی ہے۔
مگر جب پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران عمران خان نے اچانک لانگ مارچ کا اعلان کیا تو سیاسی اور سماجی حلقوں میں حیرانی پائی گئی کہ گرم ترین موسم میں لانگ مارچ کیسے ہو گا اور پھر پڑاؤ کی صورت سرینگر ہائی وے کا مقام، جہاں سائے کا بھی فقدان ہے۔ آخر ایسا کیوں؟
کچھ دِن قبل تک حکومتی حلقوں میں بھی جلد انتخابات کے انعقاد کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ مسلم لیگ ن کے اندر ایک اہم دھڑا جلد انتخابات کا حامی تھا اور بیانات میں اس کا اظہار بھی کر رہا تھا۔ لیکن پھر حکومت اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے بیانات آئے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور کسی طور پر بھی فوری انتخابات کی طرف نہیں جائے گی۔ اس تناظر میں عمران خان کا لانگ مارچ کا فیصلہ خاصا معنی خیز ٹھہرتا ہے۔
24 مئی کو پشاور میں یوتھ ونگ سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کا کہنا تھا کہ ’یہ تحریک اس لیے شروع کی جا رہی ہے کہ انتخابات کا اعلان ہو اور یہ تحریک موجودہ حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گی۔‘
اگر یہ لانگ مارچ اپنے مطلوبہ نتائج پانے میں ناکام رہتا ہے تو عمران خان کی مقبولیت پر کیا فرق پڑے گا اور اس سے آنے والے انتخابات میں اِن کی پارٹی کی کارکردگی کس حد تک متاثر ہوگی؟ اور اگر عمران خان کا مطالبہ پورا ہوتا ہے تو پھر حکومتی اتحاد کو کیا نقصان ہوگا؟ یہ تمام سوال گہرے تجزیے کے متقاضی ہیں۔

لانگ مارچ کی ناکامی اور کامیابی: حکومت اور عمران خان کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچے گا؟
اس سوال کے جواب میں تجزیہ کارسہیل وڑائچ نے اپنے خیال کا اظہار کچھ یوں کیا: ’اس لانگ مارچ کی ناکامی اور کامیابی سے حکومت اور عمران خان کی سیاست پر فرق پڑے گا۔اگر یہ لانگ مارچ ایک اچھے شو کے طور پر کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان تحریکِ انصاف کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور اگر یہ ناکام ہوجاتا ہے تو اِن کے حوصلے کمزور پڑجائیں گے۔‘
حکومت اس لانگ مارچ کا کتنا دباؤ محسوس کرے گی اورلانگ مارچ میں کتنی بڑی تعداد میں لوگ آسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ حکومت دباؤ برداشت کرے گی۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں، مگر عمران خان کی مقبولیت کا اثر موجود ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس لانگ مارچ کا حصہ بن سکتی ہے۔‘
جب پی ٹی آئی رہنما ولید اقبال سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لانگ مارچ دھرنے میں تبدیل ہو گا اور کتنے دِن کے قیام کا منصوبہ ہے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کیا جا رہا ہے، پھر بھی یہ ایک بڑا شو ہو گا۔ فواد چودھری کہہ چکے ہیں کہ مارچ کتنے دِن کا ہو گا؟ اسلام آباد میں قیام کا دورانیہ کتنا ہو گا؟ اس کا اعلان تین جون کو ہو گا۔‘
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر لانگ مارچ کا شو کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے حکومت کو کیا نقصان ہو گا اور عمران خان کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا۔ نیز اس لانگ مارچ کے کامیاب یا ناکام ہونے سے پی ٹی آئی کی مجموعی سیاست اور عمران خان کی مقبولیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ لانگ مارچ اس صورت میں کامیاب ٹھہرتا ہے کہ حکومت اگلے انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے تو عمران خان یہ کہہ سکیں گے کہ جنھوں نے مجھے نکالا تھا، مَیں نے بھی اُن کو نکال دیا۔‘
’اگر حکومت اگلے انتخابات کا اعلان فوری نہیں کرتی اور اپنی مدت پوری کرتی ہے تو ووٹرز کے اندر یہ تاثر مضبوط ہو جائے گا کہ جن کو نکالا گیا، اُن کو دوبارہ نہیں لایا جائے گا۔ اس صورت میں پی ٹی آئی کو نقصان ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس لیے عمران خان کی ساری کوشش یہی ہے کہ فوری انتخابات ہوں۔ فوج پر بھی دباؤ ڈالنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ جلد انتخابات کے انعقاد میں معاونت کریں۔ عمران خان کو احساس ہے کہ وقت ختم ہو رہا ہے، جلد ازجلد انتخابات ہوں اور نومبر میں اہم تعیناتی (آرمی چیف) وہ خود کریں۔‘
اسی سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ نئے انتخابات میں وقفہ سال کا نہیں بلکہ مہینوں کا ہے۔ ڈیڑھ ماہ قبل اس وقت حکومت میں شامل ساری جماعتیں چاہتی تھیں کہ فوری انتخابات کا انعقاد ہو، اب یہ کہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہییں۔‘
’اگر لانگ مارچ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام، اور انتخابات وقت پر ہوتے ہیں یا جلدی، اس سے قطع نظر، مَیں سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورت حال کو ختم ہونا چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔‘

عمران خان نے پہلے کہا نیوٹرل رہو، پھر مداخلت کی اپیل کر ڈالی، ایسا کیوں؟
یہاں اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیرِ اعظم اور مسند اقتدار پر فائز تھے اور اِن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوئی تھی تو اُس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ پھر جب تحریک عدمِ اعتماد پیش کی گئی تو یہ آواز اُبھرنا شروع ہوئی کہ اس سارے معاملے میں فوج نیوٹرل ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے اور اُس کے کامیاب ہونے تک، پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے اتنی شَدومَد سے فوج کو نیوٹرل رہنے اور پھر مداخلت کی اپیل نہیں کی تھی، جو وہ اس لانگ مارچ کے دوران کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ 22 مئی کو جب لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’فوج کو بھی کہتا ہوں آپ نے کہا نیوٹرل ہیں، تو پھر اس معاملے میں نیوٹرل رہیں۔‘
لیکن 24 مئی کو پشاور میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اللہ ہمیں قرآن میں نیوٹرل رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جو خود کو نیوٹرل کہتے ہیں، اُن کو واضح کرتا ہوں کہ اُن کا حلف پاکستان کی سالمیت اور خود داری کی حفاظت ہے۔‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے فوج کو نیوٹرل رہنے کا کہہ کر پھر مداخلت کی اپیل، آخر ایسا کیوں؟
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے شاید اِن کو ابھی حمایت حاصل ہے اور سابق فوجیوں کی فیملیز بھی اِن کے ساتھ ہیں۔‘
جب یہی سوال پی ٹی آئی کی خاتون رہنما یاسمین راشد سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’فوج کو نیوٹرل رہنا چاہیے اور اللہ کرے اس معاملے میں نیوٹرل ہی رہیں۔ یہ معاملہ سویلینز کا ہے، وہ خود اپنے سیاسی معاملات کو جمہوریت کے استحکام کے لیے حل کر لیں گے۔‘
جب سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ فوج کو نیوٹرل رہنے اور پھر فوج سے مداخلت کی اپیل کرنے کی وجہ کیا محض دباؤ کی پالیسی ہے؟ تو اِن کا کہنا تھا کہ ’حکومت اور حکومتی اتحادی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت نہ کرے اور وہ نیوٹرل رہے جبکہ عمران خان اب کہتے ہیں کہ فوج نیوٹرل نہ ہو اور میری سپورٹ کرے۔ اس سے فوج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما ولید اقبال کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریکِ انصاف کو فوج یا کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم اگر ادارے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں تو کرنا چاہیے۔‘
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما علی نواز اعوان نے مختصر سا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے مستقبل اور خود مختاری کے لیے ہر ایک کو آگے آنا چاہیے۔‘
دوسری طرف سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’رواں سال اکتوبر میں الیکشن ہوں گے۔ نیوٹرل کو پاکستان کی بہت فکر ہے۔ اکتوبر میں انتخابات کے انعقاد سے کسی اور کو فائدہ نہیں پولیٹکل فورسز کو فائدہ ہو گا۔‘

2014 کے دھرنے اور موجودہ لانگ مارچ میں کیا فرق ہے؟
پاکستان تحریکِ انصاف نے سنہ 2014 میں ملکی تاریخ کا طویل دھرنا دیا، جس کا دورانیہ 126 دِن رہا۔ مگر اس قدر طویل دھرنے کے فوری بنیادوں پر کوئی بڑے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں پی ٹی آئی ناکام رہی۔
اُس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مَیں اسلام آباد نواز شریف کا استعفیٰ لینے جا رہا ہوں۔‘ وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ مذکورہ دھرنا ایک ایسے وقت میں دیا گیا تھا جب حکومت کو اقتدار سنبھالے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔
اُس وقت نہ تو دوبارہ فوری انتخابات ممکن ہو سکتے تھے اور نہ ہی وزیرِ اعظم سے باآسانی استعفیٰ لیا جا سکتا تھا۔ اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کو بظاہر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔
عمران خان نے اپنی تقاریر میں امپائر کی اُنگلی اُٹھنے کی بار بار بات کی جبکہ موجودہ صورتِحال میں اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا تاثر ہے اور عمران خان نیوٹرل سے مداخلت کی اپیل تک کر چکے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2014 کے دھرنے اور موجودہ لانگ مارچ اور اِن کے نتائج میں کیا فرق ہے؟ نیز یہ کہ عمران خان سب کچھ داؤ پر لگا کر لانگ مارچ کے لیے کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟
یہ سوال پاکستان تحریکِ انصاف کی خاتون رہنما یاسمین راشد سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اُس وقت کے دھرنے میں ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ بیرونی طاقتیں یہاں کے نظامِ سیاست میں کس حد تک مداخلت اور اثر کی حامل ہو سکتی ہیں۔ اس وقت کا دھرنا اندرونی سطح پر حکومت کے خلاف تھا جبکہ اس دھرنا میں ایک عنصر بیرونی طاقتوں کے اثرانداز ہونے کے خلاف ہے۔‘
کیا دھرنوں اور لانگ مارچ سے حکومت کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟
سنہ 2014 کے دھرنے اور موجودہ لانگ مارچ میں، اگر یہ دھرنے میں تبدیل ہوتا ہے، فرق کیا ہے اور نتائج کس قسم کے برآمد ہوں گے؟ اس ضمن میں ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’2014 کے دھرنے میں اُس وقت کی حکومت اور میاں نواز شریف نے طاقت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ وہ دھرنا پی ٹی آئی کو اس حوالے سے سپورٹ کر گیا کہ اِن کے ورکر اور ووٹرز متحرک ہو گئے۔‘
’اگر وہ ناکام یا کامیاب ہوتا تو حکومت اور پی ٹی آئی کی حکومت پر کوئی فرق نہ پڑتا، جبکہ اس مارچ کی ناکامی اور کامیابی کے اثرات واضح طور پر ہوں گے۔‘

احمد اعجاز
صحافی، مصنف
بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں