’سنی آن لائن‘ کا مولانا محمدیوسف رحیم یارخانی سے خصوصی گفتگو

“مسلمان عوام اتحاد چاہتے ہیں لیکن حکمران اختلافات پیدا کرتے ہیں”

“مسلمان عوام اتحاد چاہتے ہیں لیکن حکمران اختلافات پیدا کرتے ہیں”

نوٹ: مارچ دوہزار بائیس کے ابتدائی دنوں میں پاکستان کے مایہ ناز عالم دین اور سیاستدان مولانا محمدیوسف رحیم یارخانی جامعہ دارالعلوم زاہدان (ایران) کے مہمان تھے۔ اس دوران متعدد جلسوں میں خطاب کے علاوہ، انہوں نے اہل سنت ایران کی آفیشل ویب سائٹ (سنی آن لائن) سے بھی مختلف موضوعات پر خصوصی گفتگو کی۔اس انٹرویو کا متن نذرِ قارئین ہے:

سب سے پہلے ہمارے قارئین کو پاکستان کے دینی مدارس کے حالات کے بارے میں بتائیں جو متعدد بورڈز کے تحت سرگرم ہیں؛ کیا یہ مدارس عروج کی جانب گامزن ہیں یا زوال کی؟
جب 1947ء میں پاکستان بنا، زیادہ تر مدارس دہلی کی طرف تھے۔جو پٹی جس میں اب پاکستان واقع ہے، تھوڑے مدارس چھوٹے پیمانے پر سرگرم تھے۔ جب پاکستان بنا تو دیوبند سے رکاوٹ ہوگئی اور پاکستان سے طلبا وہاں نہیں جاسکتے تھے۔ اس پر پاکستان کے علما نے توجہ دی۔ چنانچہ چھوٹے بڑے مدارس یہاں قائم ہوئے۔ زیادہ مدارس یہاں علمائے دیوبند کے ہیں۔ وفاق المدارس کی نگرانی میں اکیس ہزار مدارس ہیں کم و بیش۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے مدارس ہیں جن کا ایک ہی امتحان ہوتاہے۔ ان کا نصاب آٹھ سالہ ہے اور دورہ حدیث کے بعد تخصصات ہیں جیسا کہ تخصص فی الفقہ، تخصص فی الحدیث اور تخصص فی اللغۃ۔ مختلف مدارس تخصصات کے حوالے سے کام کررہے ہیں۔
ہماری حکومت چاہتی ہے کہ ان مدارس کو اپنی نگرانی میں لائے۔لیکن ہمارے علما یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

نگرانی سے آپ کا مقصد کیا ہے؟
حکومت چاہتی ہے ایک اعلیٰ بورڈ ہو اور ہمارا نصاب اس بورڈ کے اختیار میں ہو۔ پھر وہ ہمارے موجودہ نصاب کو تبدیل کرے۔ انگریزی و۔۔۔ شامل کرے اور ہر مدرسہ میں اپنی طرف سے دو استاذ مقرر کرے۔ یہ اہل مدارس کے لیے ناقابل قبول ہے۔ چونکہ جب ان کی طرف سے دو مدرس آجائیں، جن کا حلیہ علما کے حلیے سے مختلف ہو، ہوسکتاہے مرزائی یا عیسائی ہوں، پھر وہ ہمارے مدارس کی ثقافت کو بدل دیں گے اور حکومت بھی یہی چیز چاہتی ہے۔ امریکا نے مشرف کو پیسے دیے تھے کہ ان مدارس کو خریدلو، لیکن وہ ایسا نہ کرسکا۔ اس کی حکومت نے اپنے طورپر مدرسے بنائے ’ماڈل مدرسہ‘ کے نام سے؛ لیکن وہ بھی ناکام ہوگئے۔ اس لیے کہ ان میں طلبہ گئے ہی نہیں۔ اس لیے وہ ماڈرن چھوڑ کر ہمیں ماڈرن بنانا چاہتے ہیں۔
اس بارے میں الحمدللہ علما متفق ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ دیگر مسالک کے اہل مدارس بھی ہیں؛ اگرچہ وہ تھوڑے ہیں لیکن اس مسئلے میں ہمارے ساتھ ہیں۔ پہلے بھی یہ مسالک ختم نبوت کے مسئلے پر اکٹھے ہوچکے تھے اور جدوجہد اور بڑی قربانیوں کے بعد آئینی طورپر قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں؛ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی۔ یہ بھی قادیانیوں کے مخالف ہیں چونکہ انہیں پتہ ہے قادیانی ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ اقتدار سے محروم ہوجائیں گے۔

جزوی مسائل اور مشرب و مزاج کے فرق کی وجہ سے فرقہ وارانہ تعصب ہمارے معاشرے کا ایک مسئلہ ہے؛ اس سے چھٹکارا کیسے مل سکتاہے؟
ہمارا ایک ادارہ ہے اسلامی نظریاتی کونسل جس کا میں بھی رکن رہاہوں۔ اس کونسل میں قانون پر بحث ہوتی ہے اور مختلف مسالک کے علما اس میں شامل ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے ایک بریلوی رکن سے کہا: ہم اکٹھے بیٹھے ہیں؛ جو مسائل اختلافی ہیں ان پر بحث ہوجائے۔ ہم کوئی فیصلہ کرلیں، عوام لڑنے سے بچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا ایک بریلوی نے مجھ سے کہا کیا تم دیوبندیوں کے ساتھ اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ میں نے جواب دیا کہ جب تک ہمارے مقرر ہیں، دیوبندی بریلوی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ بعض مقررین کی روزی گالیوں پر ہے۔جب تک مخالف فریق کو گالی نہ دیں، ان کو روٹی نہیں ملتی۔ یہ ایک خاص طبقہ ہے عوام کا جو متعصب ہے اور یہ بہت کم ہیں۔ یہ ہر مسلک میں پائے جاتے ہیں۔حضرت مفتی محمودؒ اور نورانی صاحب ساتھ چلتے رہے۔ مفتی صاحب نے نورانی صاحب کو کہا ہم اکٹھے بیٹھ کر اپنے اختلافی مسائل پر بحث کریں؛ جو فیصلہ ہوگا اس کو شائع کردیں۔ وہ متفقہ ہوگا؛ باقی مولوی لڑیں کوئی پرواہ نہیں۔ عوام متفق ہوجائیں گے۔وہ ایسا نہ کرسکے۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے یہی پیشکش کی۔ تجویز ہوئی کہ دو مولوی آپ دیں دو ہم دیں گے؛ ہم سیاسی لوگ ہیں۔چارے بڑے مسائل ہیں جن پر دیوبندی بریلوی ایک دوسرے پر اعتراض کرتے ہیں۔ جب یہ طے ہوجائے، پھر درمیانی راستہ نکل جائے گا۔ عوام کا دباؤ ہے آپس میں لڑو نہیں؛ لیکن کچھ مقررین لڑارہے ہیں۔
عالمی طورپردیکھا جائے تو وہاں بھی مسلمان ایک ہونا چاہتے ہیں۔ عوام کہتے ہیں لڑو نہیں۔لیکن بادشاہ آپس میں لڑرہے ہیں۔ بادشاہ بیرونی قوتوں کے ماتحت ہیں، عوام ایسا نہیں ہیں۔ عوام کہتے ہیں ان بادشاہوں اور بیرونی قوتوں سے جان چھڑائیں اور ایک ہوجائیں۔ اب اس کے لیے قائد کی ضرورت ہے۔ وہ بیرونی قوتوں کی قوت ٹوٹ رہی ہے۔ جب وہ آپس میں لڑیں گے، یہ آزاد ہوجائیں گے۔ قائد ایک ایسا شخص ہو جس کے پیچھے سب چلیں۔ مثلا ترک صدر رجب طیب اردوغان عثمانی خلافت کی بات کرتے ہیں اور بہت سارے مسلمان ان کے حامی ہیں۔ البتہ بعض عرب انہیں نہیں مانتے ہیں۔ جب متفقہ قائد سامنے آجائے، اختلاف کرنے والے خود پیچھے ہٹ جائیں گے۔

باربار یہ اعتراض سننے میں آتاہے کہ دینی مدارس مسلکی اختلافات اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں مصروف ہیں؛ آپ کا تبصرہ؟
ہمارے ہاں دینی مدارس کا نصاب بنیادی طورپر ایک ہی نصاب ہے۔ سب درس نظامی پڑھاتے ہیں۔ اوپر ان کی سند بھی ایک ہے۔ یہ تعصب مدارس سے نہیں بعض مقررین کی وجہ سے پیدا ہوتاہے جن کی روزی فرقہ واریت کو ہوا دینے میں ہے۔

یہ مقررین بھی آخر ان ہی مدارس کی پیداوار ہیں؟
مدارس والے ساتھ ہیں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی چھتری تلے۔ حکومتی دباؤ کا اثر بھی ہے اور اس اتحاد میں کچھ حقیقت بھی ہے۔

آپ نے رجب طیب اردوغان کی بات کی؛ آپ ان کی سیاسی جماعت کو اپنی جماعت سے کتنا مختلف یا قریب سمجھتے ہیں؟
اردوغان نے اپنی ایک ملاقات میں مولانا فضل الرحمن کو کہا تھا کہ پہلے ہمارا ملک فوج کے قبضے میں تھا۔ کسی کو تقریر کرنے بھی نہیں دیتے تھے۔ اقتدار میں حصہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہم نے بہت سوچا کہ کیا کریں۔ اس وقت ایک لیڈر تھا جس کو فوج مانتی تھی۔ ہم نے اس کے نام پر پارٹی بنائی۔ چلتے رہے چلتے رہے آخر عوام میں ہمیں پذیرائی ملی۔ فوج پیچھے ہٹ گئی۔ ہم نے اتنا کرسکا کہ اسلام کو آزاد کرالیا؛ ابھی تک اسلام نہ لاسکے، لیکن آزاد کرالیا۔ باپردہ خواتین کو تعلیم گاہوں اور سرکاری اداروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی؛ انہوں نے یہ قانون بدل دیا۔ انہیں اب بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے، لیکن کام شروع ہواہے۔ ضروری نہیں اردوغان ہی کام مکمل کرے، کوئی اور آجائے گا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو جمع کرے گا۔

آپ کی جماعت کے لوگ عمران خان پر الزام لگارہے ہیں کہ ان کے ننھیال مرزائی ہیں اور وہ مرزائیوں کے مفادات پر کام کررہاہے؛ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی بڑی جماعتیں تو مرزائیوں کے خلاف ہیں، فوج میں بھی دیندار لوگ ہیں اور وہ پاکستان کا تحفظ چاہتے ہیں، پھر ایک قادیانی نواز شخص کیسے پاکستان کا وزیر اعظم بنا؟
عمران خان کو فوج لے آئی ہے۔ فوج کے اپنے مفادات ہیں؛ وہ ملک کی پچاسی فیصد بجٹ کھارہی ہے۔ کوئی اور لیڈر آجائے، ان کا بجٹ کم پڑجائے گا۔ چونکہ پارٹی والے اپنی پارٹی سے پوچھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ لہذا ایک ایسے شخص کو انہوں نے سامنے لایا جو فوج سے پوچھ کر فیصلہ کرے۔ عوام نے ان کو ووٹ نہیں دیا؛ دھاندلی ہوئی تھی۔

آٹھ سال پہلے جب میں نے آپ سے گفتگو کی، اس وقت بھی تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات چل رہے تھے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن اب افغانستان کے حالات بدل چکے ہیں؛ اس تناظر میں ٹی ٹی پی کا مستقبل کیا ہوگا؟
امریکا کے اشارے پر ہمارے بعض اداروں نے وزیرستان کے طلبا کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے کچھ دھماکے خود کیے تاکہ پھر وہ وزیریوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر ان کو مارسکیں۔ اس وجہ سے دھماکوں کے بعد وزیریوں پر بعض اداروں نے خوب ہاتھ صاف کیے اور ان کو مارا۔ یہ سب کچھ امریکا کو راضی کرنے کے لیے کیا گیاتاکہ وزیری لوگ جو افغانستان میں طالبان کی حمایت کررہے ہیں، وہ ان کی حمایت نہ کرسکیں۔ اس وجہ سے دھماکے ہوتے رہے اور بعض ادارے دھماکے کرنے والوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو کامیابی دی اور امریکا افغانستان سے بھاگ گیا۔ اللہ تعالیٰ افغانوں کو حکومت پختہ کرنے اور قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

افغانستان میں طالبان دوبارہ بر سر اقتدار آچکے ہیں؛ اس دور کے طالبان کو بیس سال پہلے کے طالبان سے آپ کتنے مختلف ہیں؟
اس وقت ان کو زیادہ تجربہ نہیں تھا۔ ایک طاقت ہٹ گئی تھی اور دوسری مداخلت کررہی تھی۔ اب یہ کافی تجربے سے گزرے ہیں۔ ان طاقتوں کی سپرپاوری بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب یہ پہلے کی طرح مداخلت نہیں کرسکتی ہیں۔

اب تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیاہے؛ آپ کے خیال میں بالاخر دنیا ان کو تسلیم کرے گی؟ اپنی شرائط منواکر یا شرائط منوائے بغیر؟
دنیا افغان طالبان کی حکومت کو بالاخر تسلیم کرلے گی وہ بھی شرائط منوائے بغیر؛ چونکہ یہ کسی کی شرائط نہیں مانیں گے۔

افغان طالبان کو پاکستان سے قریب سمجھاجارہاہے، توقع تھی جب ان کی حکومت کابل پر قابض ہوگی، تو کم از کم پاک افغان بارڈر پر کوئی لڑائی اور فائرنگ نہیں ہوگی۔ لیکن ڈیورنڈ لائن پر اختلافات کی وجہ سے پاکستانی سکیورٹی فورسز اور طالبان فورسز میں فائرنگ کے تبادلہ ہورہاہے؛ اس مسئلے کا مستقبل آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
پاکستان طالبان کی حکومت سے جنگ نہیں کرسکتا۔ ایران بھی۔ سرحدی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں اور ان کا حل مذاکرات ہی کے ذریعے ہونا چاہیے۔

آٹھ سال پہلے مودی کی حکومت بھارت میں بنی۔ اس وقت بعض مسلمان تشویش کا اظہار کررہے تھے اور اسی دوران آپ بھی زاہدان تشریف لاچکے تھے اور ہم نے آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے اس وقت فرمایا تھا: ’بھارت میں جمہوریت کا راج ہے۔ اگر یہ خلاف چلے سیاسی جماعتیں انہیں روک دیں گی۔‘ اب منظرنامہ مختلف نظرآرہاہے؛ آپ کی کیا رائے ہے؟
ہندووں میں کچھ انتہاپسند گروہ ہیں۔ وہ تعصب رکھتے ہیں۔ مودی کا تعلق ان ہی گروہوں سے ہے۔ وہ مسلمانوں کو تنگ کرتے ہیں، حملے بھی کرتے ہیں۔۔۔

اب حکومت بھی کرتے ہیں!
جی حکومت بھی ان کے ہاتھ میں آئی ہے۔ یہ لوگ تعصب پھیلاکر ووٹ لیتے ہیں اور اسی کے سہارے حکومت کرتے ہیں۔

اس کا مطلب ہوا بھارتی جمہوریت میں ’جمہور‘ اور اکثریت ان کے ساتھ ہیں؟
جمہور ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ سارے ہندو مسلمانوں سے تعصب کا معاملہ نہیں کرتے ہیں۔

بہر حال سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے دفاع میں اس حکومت کو نہیں روکا۔ کانگریس بھی کھل کر مسلمانوں کی حمایت نہیں کرتی تاکہ اس پر مسلمان نوازی کا الزام نہ لگے اور اس کا ووٹ بینک کہیں متاثر نہ ہو!
سیاسی جماعتیں دھاندلی کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ کانگریس نے ملک بنایاہے اور ان کا فارمولہ ہے ہندو مسلم اتحاد۔ لیکن بے جی پی نے ہندومت کا نعرہ لگاکر کانگریس کو ہٹایا ہے اور ٹکراؤ پر اترآیاہے۔ لیکن یہ چیزیں ہمیشہ نہیں رہ سکتیں۔ اصولی طورپر ملک کی جو بنا ہے وہ قائم ہوجاتی ہے۔

ایران میں اہل سنت کے حالات کو آپ قریب سے دیکھ رہے ہیں؛ انہیں کوئی مشورت؟
ایران کے اہل سنت دفاع کی حالت میں ہیں اور جس جماعت کو ساتھ دینے میں انہیں اپنے دفاع مضبوط کرنے کے امکانات نظر آرہے ہیں؛ وہ اسی جماعت کو ووٹ دیں۔

آخری بات؟
مسلمان سوچ رکھیں انقلاب کی، لیکن ظاہر کریں دفاع۔ تیاری بہر حال ہونی چاہیے تاکہ ہر وقت ضرورت پڑی، تو افغان قوم کی طرح جہاد کریں اور قابض طاقتوں کو نکالیں۔ جب ہندوستان میں انگریز حکومت قابض تھی، کسی کو تنہائی میں ان کے خلاف دعا کرنے کی جرات نہیں تھی۔ لیکن مسلمانوں نے تحریک چلائی اور بالاخر آزادی حاصل کرلی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں