بھارتی سیاستدان مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے بارے میں انڈین حکومت پر دباؤ ڈالیں

بھارتی سیاستدان مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے بارے میں انڈین حکومت پر دباؤ ڈالیں

ایران کے ممتاز سنی عالم دین نے پچیس فروری دوہزار بائیس کے بیان میں بھارت میں مسلمانوں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈین سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ مسلمان اقلیت کے حقوق اور مذہبی آزادی کا خیال رکھے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں اس سے قبل جمہوریت اور مکمل آزادی پائی جاتی تھی۔ اس ملک میں مسلم اور غیرمسلم شہری سب پرامن زندگی گزارتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: ہند کے مسلمانوں کا اس ملک پر بڑا احسان ہے؛ انہوں نے انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کی اور ہندو برادری سے مل کر ہندوستان کو انگریز سامراج سے آزاد کرایا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اب بھارت کی موجودہ حکومت جو ایک انتہاپسند اور متعصب حکومت ہے، مسلمانوں کے خلاف ظلم کا ارتکاب کررہی ہے۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: بھارتی سیاسی رہ نماؤں کو ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہاں کی مسلم اقلیت کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ان کے دینی اور انسانی حقوق پامال نہ ہوجائیں؛ بصورتِ دیگر ہند کی تاریخ کو نقصان پہنچتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے بھارتی مسلمانوں کو بھی مشورہ دیا کہ رواداری، باہمی پرامن زندگی کے اصول اور احتیاط کی جانب کو اختیار کریں۔

روس یوکرین پر حملہ اور عوام کے قتل بند کردے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں یوکرین پر روسی فوجی حملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: یوکرین پر روسی فوجوں کی یلغار اس ہفتے کے چونکا دینے والے واقعات میں شامل تھی۔
انہوں نے کہا: ہم علم و دانش، تہذیب، مکالمہ اور ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں اور لوگ انسانی حقوق اور آزادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں؛ جنگ، خونریزی اور بربریت کا دور گزرچکاہے۔ ایسے میں کسی مستقل ریاست پر حملہ کرنا اور اس کے فوجیوں اور عام شہریوں کو بڑے اسلحے سے مارنا ایک ظالمانہ اقدام اور سنگدلی کی نشانی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے سوال اٹھایا: قومیں اور مختلف ممالک کیوں بات چیت اور مکالمہ سے اپنے مسائل حل نہیں کراتے ہیں؟! بڑے ممالک کو چاہیے چھوٹے ممالک اور قوموں پر حملہ کرنے سے گریز کریں جو اپنا دفاع نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر کہیں انہیں خطرہ محسوس ہوتاہے، بات چیت اور مذاکرات سے مسائل حل کرائیں۔
انہوں نے کہا: عصر حاضر میں جنگ اور دیگر ملکوں پر فوجی یلغار کی کوئی حمایت نہیں کرسکتا اور جو ملک ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں، دیگر ممالک انہیں مذمت کرتے ہیں اور آخر وہ خود نقصان اٹھاتے ہیں۔
خطیب اہل سنت نے اپنے بیان کے اس حصے کے آخر میں کہا: روسی حکام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ یوکرین پر حملہ بند کریں اور عام لوگوں کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ اس کے بجائے بات چیت کی راہ اختیار کریں۔

مرشدِ اعلیٰ بذاتِ خود اہل سنت برادری کے مسائل پر توجہ دے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب میں بعض سرکاری اداروں اور شیعہ علما کی اہل سنت کے مسائل میں مداخلت اور اہل سنت کو سرکاری محکموں سے دور رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے مرشدِ اعلیٰ سے مطالبہ کیا بذاتِ خود اس مسئلے کو سنبھالیں۔
انہوں نے معروف حدیث ’الا کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ‘ پڑھتے ہوئے کہا: ایران ایک پرانا اسلامی ملک ہے جس کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ جن قوموں کی تاریخ اور تہذیب پرانی ہو خاص کر اسلامی تہذیب، انہیں چاہیے اپنی برداشت بڑھائیں۔ اسلام رواداری اور برداشت کو بڑھاتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے امید ظاہر کی ایران میں حکام اپنی برداشت بڑھائیں اور مذہبی آزادی پوری طرح دلوائیں۔ مذہبی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سمیت سب ممالک نے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیا ہے جو لوگوں کی مذہبی آزادی پر تصریح کرتے ہیں اور ہمارے آئین نے بھی اسلامی مسالک کے پیروکاروں کو مذہبی آزادی دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے مطابق جو ہم سب کا قومی معاہدہ ہے، کسی بھی شخص یا ادارے کو عوام کے مذہبی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے؛ چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی۔قانونی طورپر ہمیں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت، ائمہ جمعہ و جماعت کی تقرری و برطرفی کے بارے میں ہمیں آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: بعض ادارے قومی اور بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مساجد کے امور میں مداخلت کرتے ہیں یا پابندیاں عائد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم تمہاری مساجد کی تعمیر اور پیش امام کی تقرری کے لیے فیصلہ کرتے ہیں؛ حالانکہ مساجد کے امور ہمارے مذہبی امور میں شامل ہیں۔ اہل سنت کی مساجد ہرگز کسی بھی دور میں کسی بھی نظامِ حکومت کے لیے نقصان دہ نہیں رہی ہیں؛ ہماری مساجد عبادت کی جگہیں ہیں اور لوگ وہاں نماز پڑھ کر عبادت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: مساجد کی تعمیر کے حوالے سے قانونی طورپر ہمیں آزادی حاصل ہے؛ شہروں میں کچھ اصول و قوانین ہیں جہاں اوقاف اور بلدیاتی اداروں کے پاس جانا پڑتاہے، لیکن بستیوں اور دہاتوں میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے سرکاری اجازت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ حسبِ ضرورت خود فیصلہ کرتے ہیں اور مسجد تعمیر کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اہل سنت کے مذہبی امور میں مختلف ادارے اور شیعہ علما مداخلت کرتے ہیں اور ان کی مداخلت کی وجہ سے مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ مرشدِ اعلیٰ کو جہاں تک ہم جانتے ہیں، وہ ایسے اقدامات کے خلاف ہیں اور انہیں پوری رپورٹ نہیں ملنے دی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مرشدِ اعلیٰ سے ہماری درخواست ہے کہ ایسے اداروں اور علما کو روکیں جو ہمارے مذہبی امور میں مداخلت کرتے ہیں؛ یہ ہمارا قانونی اور برادرانہ حق ہے۔ کردستان سے لے کر ایران کے تمام سنی اکثریت علاقوں کا مطالبہ ہے کہ آئین پورا نافذ ہوجائے اور اہل سنت اپنے مذہبی امور کا فیصلہ خود کرے؛ حکومت صرف مشورت دے اور نگرانی کرے، لیکن مداخلت نہ کرے۔
انہوں نے امتیازی سلوک کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے اہل سنت کے قابل افراد کی سرکاری اداروں میں تقرری کو قومی اتحاد اور بھائی چارہ کی تقویت کے لیے ضروری قرار دیا۔ اس لیے مرشدِ اعلیٰ سے مطالبہ ہے بذاتِ خود اس مسئلے کی نگرانی بھی کرے تاکہ اہل سنت کا یہ شکوہ ختم ہوجائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں