مولانا عبدالحمید:

انقلاب سے 43 سال بعد بھی ایرانی اہل سنت امتیازی سلوک سے نالان ہیں

انقلاب سے 43 سال بعد بھی ایرانی اہل سنت امتیازی سلوک سے نالان ہیں

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی 43ویں سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مختلف ایرانی قومیتوں اور مسالک کی اس انقلاب سے وابستہ امیدوں کی یاددہانی کی۔ انہوں نے کہا ابھی تک ایرانی اہل سنت ’قابل افرادکی صلاحیتوں سے استفادہ‘، ’مذہبی آزادی‘ اور ’امتیازی سلوک‘ کے بارے میں پریشان ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں چار فروری دوہزار بائیس کو خطبہ جمعہ کے دوران کہا: صدیوں بعد جب ایران میں اسلام کے نام پر انقلاب ہوا اور ایک اسلامی نظام قائم ہوا، توقع یہی تھی کہ ملک میں اس قدر عدل و انصاف کا راج ہوگا کہ ملک کی مختلف لسانی و مذہبی و مسلکی برادریاں امن و سکون سے رہیں گی، حتی کہ غیرمسلم بھی ہر فکر و سوچ کے ساتھ اپنے حقوق حاصل کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا: انقلاب کے تینتالیس سال پورے ہونے والے ہیں، مگر ابھی تک مسائل موجود ہیں۔ اہل سنت ایران نے جو انقلاب اور نظام کا ساتھ دیا ہے اور قومی امن و اتحاد پر بھی موثر ہیں، مگر ابھی تک امتیازی سلوک سے نالان ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے امتیازی پالیسیاں ختم کی جائیں۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: یہ اہل سنت کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کے قابل افراد کی صلاحیتوں سے بڑے عہدوں میں کام لیاجائے۔ رفاہی خدمات کے حوالے سے شکایتیں کم ہیں اور شیعہ و سنی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ لیکن ملکی اور صوبائی عہدوں کی تقسیم میں اہل سنت کو نظرانداز کیاجاچکاہے اور سنی اکثریت علاقوں میں انصاف کا نفاذ نہیں ہوا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر ان سے کام نہیں لیاجارہاہے۔

انہوں نے مزید کہا: توقع یہ تھی کہ اہل سنت کو ان کے جائز حقوق سے زیادہ حقوق مل جائیں۔ اگر ایران میں حکومت ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہم اہل تشیع کو اپنے سر پر بٹھاتے، اگر اقلیت میں ہوتے ہم انہیں ان کے جائز حقوق سے بھی زیادہ حقوق دلواتے؛ یہی امید موجودہ حکام سے ہے کہ اہل سنت کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کریں۔

صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: مذہبی امور میں اہل سنت کو آزادی حاصل ہونی چاہیے تاکہ اہل سنت جہاں بھی رہتے ہیں آزادانہ اپنے رب کی عبادت کرسکیں۔ جن شہروں میں اہل سنت رہتے ہیں، انہیں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا: بعض سنی اکثریت علاقوں میں اہل سنت کو مسجد تعمیر کرنے میں مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، لیکن بعض دیگر علاقوں میں رکاوٹیں ہیں۔ جب ہم اہل سنت کی مساجد کا مسئلہ اٹھاتے ہیں، بعض حضرات بلوچستان جیسے سنی اکثریت علاقوں کی مساجد کے اعدادوشمار پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ بیرجند، ارومیہ، کرمانشاہ سمیت متعدد شہروں کے بارے خاموش رہتے ہیں جہاں اہل سنت کی بڑی تعداد آباد ہے۔ ان علاقوں میں لوگوں کو مسجد تعمیر کرنے یا کم ازکم نمازخانوں میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

مولانا عبدالحمید نے اہل سنت کے مذہبی امور میں سرکاری مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے کہا: یہ اہل سنت کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی امور خود سنبھالیں اور حکام صرف مانیٹر کریں۔

پالیسیوں میں نظرثانی کی ضرورت ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ہم انتہاپسندی اور شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں انتہاپسند کامیاب نہیں ہوئے، اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ حکومت ان کے مخالف تھی، بلکہ عوامی مخالفت کی وجہ سے انہیں پذیرائی نہیں ملی اور شیعہ و سنی شدت پسندی کے خلاف تھے۔

انہوں نے مزید کہا: ہماری راہ اعتدال و میانہ روی اور بھائی چارہ کی ہے۔ تمام ملکوں کے سربراہان کو ہماری نصیحت ہے کہ اپنے ملکوں کے برادریوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔

ممتاز عالم دین نے کہا: بڑے پیمانے پر لوگ موجودہ نظام سے ناراض ہوچکے ہیں اور عوامی ناراضگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے بعض پالیسیوں میں نظرثانی کی جائے۔ سب مسلم حکام کو میری نصیحت ہے کہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں اور عوام کو رضامند رکھنے کے لیے کوشش کریں۔

مولانا نے کہا: حاکمیت اور سیاسی نظام عوام کے لیے رحمت کا سایہ ہونا چاہیے، عوام میں اتحاد اور بھائی چارہ کو تقویت پہنچائے اور عوامی مطالبات پر توجہ دے؛ اسی سے دنیا میں نظام ہائے حکومت پائیدار بن سکتے ہیں۔ جذبہ خیرخواہی ہی کے تحت یہ مشورے دیتے ہیں۔

منشیات کا کاروبار شرعا حرام ہے
بڑھتی ہوئی پھانسی کی سزاؤں کے خلاف ہوں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے منشیات کے کاروبار کی مذمت کرتے ہوئے کہا: حقیقت یہ ہے کہ منشیات کا کاروبار جو گھرانوں کو تباہ کرتاہے اور خواتین و حضرات اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، ایک ناجائز اور حرام کاروبار ہے۔

انہوں نے مزید کہا: بندہ منشیات کے کاروبار کرنے والوں کی پھانسی کی سزا کے مخالف اور اس پر افسوس کرتاہے، لیکن جب ججز ہماری نہیں سنتے ہیں، لوگوں کو چاہیے ہماری بات مان لیں اور منشیات کی تجارت سے پرہیز کریں۔ کچھ لوگ شاید یہ کہیں کہ پھر کہاں سے کھائیں، انہیں سمجھ لینا چاہیے جس رب نے دوسروں کو روزی دی ہے اور اس تجارت سے گریز کرنے والوں کو روزی دیتاہے، وہی سب کو روزی دیتاہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: حیرت کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان کیوں منشیات کے کاروبار کی وجہ سے کیوں پھانسی پر چڑھ رہے ہیں؟! بعض اوقات ایک ہی خاندان میں ایک بھائی منشیات کے الزام میں گرفتار ہوکر پھانسی کی سزا پاتاہے، پھر اس کا دوسرا بھائی اسی کاروبار میں لگ جاتاہے۔ کچھ ایسے خاندان بھی ہیں جن تین تین بھائی منشیات کی وجہ سے موت کی سزا پاچکے ہیں۔ کاش ہمارے ججز یہ سوچ لیتے کہ جب تین بھائی موت کی سزا پاچکے ہیں، کم ازکم دو کے حق میں ترحم دکھاتے۔

مولانا عبدالحمید نے سوال اٹھایا: قیامت کے دن بلکہ اس سے پہلے اسی دنیا میں ان گھرانوں، خواتین اور بچوں کا جواب کون دے گا جو پھانسی کی سزا کی وجہ سے یتیم، بیوہ اور بے سہارا بن چکے ہیں؟! یہ اسی ملک کے باشندے اور ہمارے ہم وطن ہیں۔ کیا حکومت ان خاندانوں کی سرپرستی قبول کرتی ہے کہ آئندہ ان کے بچے تعلیم کی راہ اختیار کریں اور راستے سے بھٹک کر لوگوں کے لیے خطرہ نہ بن جائیں؟

انہوں نے آخر میں منشیات کا کاروبار کرنے والوں کو نصیحت کی اس منحوس تجارت سے ہاتھ دھوئیں اور اپنے بچوں کو ایسا کھانا مت کھلائیں۔ انہیں عمدہ غذائیں کھلانے اور شاندار کھوٹیوں میں بسانے کے بجائے حلال کھانا اورمعمولی مکان دلوائیں، ان کا امن نہ چھین لیں اور ان کی تعلیم اور درست تربیت کے لیے منصوبہ بندی کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں