انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے بعد اب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست قرار دے دیا ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ ایک ’کمتر نسل سے تعلق رکھنے والے گروہ‘ کے طور پر برتاؤ کرتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس دعوے کو یہودی ریاست اسرائیل کی جانب سے سختی سے مسترد کیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل اگنیس کلامارڈ نے کہا کہ اسرائیل کی اپنے زیر انتظام تمام علاقوں میں علیحدگی، بےدخلی اور اخراج کی ظالمانہ پالیسیاں واضح طور پر نسل پرستی کے مترادف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ ایک کمتر نسل سے تعلق رکھنے والے گروہ کے طور پر سلوک کیا جاتا ہے اور منظم طریقے سے انہیں حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، پھر چاہے وہ غزہ، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے باقی حصوں میں رہتے ہوں یا اسرائیل میں ہی رہتے ہوں۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ یائیر لاپید نے ان دعووں کو حقیقت کے برعکس قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کیا اور الزام لگایا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے یہ باتیں دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے پھیلائے گئے جھوٹ کی بنیاد پر کی جارہی ہیں۔
ایک سال قبل اسرائیل میں موجود انسانی حقوق کے گروپ ’بی سیلم‘ کی جانب سے دیے گئے اس بیان سے اشتعال پیدا ہوا تھا جس میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی پالیسیاں دریائے اردن سے بحیرہ روم تک یہودیوں کی بالادستی کو نافذ کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں اور وہ نسل پرستی کی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔
گزشتہ سال اپریل میں نیویارک میں موجود ’ہیومن رائٹس واچ‘ اعلانیہ یہ متنازع الزام لگانے والی پہلی تنظیم بنا۔
لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ ماضی میں اس حوالے سے اٹھائی جانی والی ان ہی آوازوں پر مبنی ہے جس میں کہا گیا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور خود اسرائیل کے اندر بھی نسل پرستانہ پالیسی نافذ العمل ہے جہاں عرب شہری کی تعداد آبادی کے 20 فیصد سے زائد ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے واضح کہ وہ اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کا موازنہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور والے حالات سے نہیں کر رہے لیکن اسرائیلی طرز عمل اور پالیسیاں عالمی قانون کے مطابق نسل پرستی کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔
آپ کی رائے