ناروے کی میزبانی میں ہونے والے اوسلو مذاکرات میں امریکا اور یورپی ممالک کے نمائندوں نے طالبان سے ڈومور کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اوسلو میں ہونے والے مذاکرات میں یورپی یونین، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، برطانیہ اور امریکا کے خصوصی ایلچیوں اور نمائندوں نے طالبان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کیے۔
ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کے شرکاء نے طالبان کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے پر زور دیا۔
شرکأء نے طالبان سے ملک میں جبری حراست، مخالفین کو لاپتہ کرنا، میڈیا کیخلاف کریک ڈاؤن، ماورائے عدالت قتل اور تشدد کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا اور خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سمیت ان پر بغیر محرم کے سفر کی پابندیوں پر تنقید کی۔
اعلامیہ کے مطابق مذاکرات کے شرکاء نے افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری امداد کی بحالی پر بھی زور دیا اور ملکی بینکوں میں کیش لیکویڈیٹی کی ضرورت کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ کار مملکت چلانے کے لیے بینکوں میں نقد رقم کا ہونا ضروری ہے۔
تاہم اعلامیہ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرانا، اثاثوں کی بحالی اور امدادی فنڈز کی فراہمی چاہتے ہیں تو انھیں درج بالا تمام معاملات پر مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
گزشتہ برس اگست میں طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھال لیا تھا جس کے بعد بیرون ملک بینکوں میں افغان حکومت کے اثاثوں کو منجمد کردیا گیا تھا اور امدادی فنڈز بھی روک لیے گئے تھے۔
فنڈز کی کمی کے باعث لاکھوں افغانیوں کو بھوک و افلاس، بیروزگاری اور مہنگائی کا سامنا ہے، اقوام متحدہ نے اس صورت حال کو شہریوں کیلیے جہنم قرار دیتے ہوئے امداد کی بحالی پر بھی زور دیا ہے۔
تاہم عالمی قوتیں طالبان کو براہ راست امداد دینے کے بجائے بین الاقوامی تنظیموں اور این جی اوز کے ذریعے امداد کی افغان عوام تک پہنچانا چاہتی ہیں لیکن شفافیت کے خدشے کے پیش نظر تاحال ایسا بھی ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
آپ کی رائے