روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ کی توہین ہرگز آزادی اظہار رائے نہیں بلکہ مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
خبر رساں ادارے ٹی آر ٹی کے مطابق پیوٹن نے اپنی سالانہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور یہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
روسی صدر نے گزشتہ سال چارلی ہیبڈو کے دفاتر پر ہونے والے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام کی توہین جیسے اقدامات انتہا پسندانہ انتقامی کارروائیوں کو جنم دیتی ہیں۔
پیوٹن نے نازیوں کی تصاویر کو ویب سائٹس پر پوسٹ کرنے پر بھی تنقید کی البتہ فنکارانہ آزادی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی اپنی حدود ہیں اور اسے دوسروں کی آزادیوں کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔
پیوٹن نے کہا کہ روس ایک کثیر النسلی اور کثیر الاعتقادی ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے، اس لیے ہم روسی ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرنے کے عادی ہیں۔
تاہم انہوں نے اپنے حریف ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ دوسرے ممالک میں اس احترام کی سپلائی کم ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر پیوٹن کا بیان میرے اس پیغام کی تصدیق کرتا ہے کہ ہمارے نبی پاکﷺ کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے اور ہم مسلمانوں بالخصوس مسلم رہنماؤں کو اسلام فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے اس پیغام کو غیر مسلم ممالک کے رہنماؤں تک پہنچانا چاہیے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان گزشتہ کئی سالوں سے مغربی دنیا پر زور دے رہے ہیں کہ وہ آزادی اظہار پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے جذبات کا بھی احترام کرے۔
الجزیرہ کو ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ مسلمان رہنماؤں نے مغرب کے سامنے کبھی بھی اسلام کی حقیقی تصویر کشی نہیں کی اور خصوصاً نائن الیون کے بعدمغربی ممالک میں مسلمانوں کو اسلامو فوبیا کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان اکیلا کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا بلکہ حالات کی تبدیلی کے لیے پوری مسلم دنیا کو اقوام متحدہ جیسے فورم پر مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے توہین رسالت
چارلی ہیبڈو نے 2011 میں بھی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے توہین آمیز خاکے اپنے سرورق پر شائع کیے تھے جس کے بعد اس کے دفتر پر فائر بموں کے ذریعے حملہ بھی کیا گیا تھا۔
اس کے بعد میگزین کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسمانوں نے ادارے سمیت خاکے بنانے والوں سے معافی اور انہیں سزا دیے کا مطالبہ کیا تھا تاہم میگزین نے اسے آزادی اظہار رائے قرار دیا تھا۔
2015 میں چارلی ہیبڈو پر حملے گئے تھے، جس میں فرانس کے مشہور کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اگلے روز ایک خاتون پولیس افسر کو بھی قتل کردیا گیا تھا اور مسلح حملہ آور ایمیڈی کولیبیلی نے مزید چار افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
فرانس کی پولیس نے 2015 کے حملوں کا ذمہ دار ان 14 افراد کو ٹھہرایا جو مقابلے کے دوران مارے گئے تھے۔
گزشتہ سال پیرس میں ملزمان کے کورونا وائرس کے ٹیسٹ منفی آنے بعد ان کے خلاف ٹرائل ایک مرتبہ پھر شروع ہوا تھا۔
تاہم گزشتہ سال ستمبر میں حملے کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے پر ایک بار پھر گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، جس پر پوری دنیا سے سخت ردعمل آیا تھا۔
اس اعلان کے چند ہفتوں بعد فرانس کے دارالحکومت میں گستاخانہ خاکے بنانے والے میگزین ‘چارلی ہیبڈو’ کے سابق دفتر کے قریب چاقو کے حملے میں 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
آپ کی رائے