وزیرِ اعظم عمران خان نے اتوار کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس سے اپنے خطاب میں واشنگٹن کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو چار کروڑ افغان عوام اور طالبان کی حکومت کو الگ کر کے دیکھنا ہوگا۔
واضح رہے کہ پاکستان 40 سال بعد اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس سے قبل سنہ 1980 میں جب پاکستان میں یہ اجلاس منعقد ہوا تھا تب بھی توجہ کا مرکز افغانستان ہی تھا۔
اسلامی تعاون تنظیم کے اختتام پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی رکن ممالک کی جانب سے منظور شدہ قرارداد پیش کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو دہشت گرد تنظیموں جیسے کہ داعش، القاعدہ، تحریکِ طالبان پاکستان اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی ایم) کے خلاف مضبوط اقدامات اٹھانے کا کہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان افغان طالبان کے ذریعے پاکستانی طالبان یعنی ٹی ٹی پی کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ پاکستان کو دوسرا خطرہ داعش خراسان سے ہے، جس کو پاکستان اور افغان طالبان دونوں پنپنے نہیں دینا چاہتے۔ ‘
اکتیس نکات پر مبنی اس قرار داد میں عالمی برادری کو اندرونی اور بیرونی ‘سپائلرز’ سے محتاط رہنے اور افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کی تنبیہ کی ہے۔ جبکہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو شراکت داری پر مبنی حکومت بنانے، اور اس حکومت کے ساتھ ساتھ افغان معاشرے میں افغان بچیوں اور خواتین کو شامل کرنے پر زور دیا ہے۔
قرار داد میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حِسین براہیم طہٰ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ عالمی اسلامی فِق اکیڈمی کی سربراہی میں مذہبی علما کے ایک وفد کو بھیج کر اسلام میں خواتین کے حقوق، عدل و انصاف، رواداری اور مرد و خواتین کی یکساں تعلیم کے بارے میں آگاہی دیں۔
او آئی سی اجلاس کی کہانی
19 دسمبر کے اجلاس میں شامل ہونے والے او آئی سی رکن ممالک، غیر ملکی اور علاقائی وفود کی تعداد 70 کے قریب ہے، جن میں سے 20 وفود وزارتی سطح اور دس ڈپٹی منسٹر کی سطح کے شامل ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں کئی روز سے سیکیورٹی کے غیر معمولی حد تک سخت انتظامات جاری تھے۔ اسی سلسلے میں صحافیوں کے لیے وزارتِ خارجہ کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس تک شٹل سروس کا انتظام کیا گیا تھا جس کے لیے انھیں صبح چھ بجے اسلام آباد میں آبپارہ مارکیٹ کے قریب سپورٹس کمپلیکس آنے کا کہا گیا تھا۔
اس بار اجلاس میں یکے بعد دیگر تمام تر وزرائے خارجہ اور اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکریٹری نے افغانستان کی بگڑتی صورتحال کا فوری لیکن دیرپا حل نکالنے پر زور دیا۔
اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل حِسین براہیم طہٰ نے کہا کہ افغانستان کی ضروریات پوری کرنے اور اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ خطے میں دہشتگردی دوبارہ سر نہ اٹھائے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد اور کوآرڈینیشن کے انڈر سیکریٹری جنرل مارٹن گریفیتھ نے کہا کہ دنیا افغانستان میں تباہی ہوتے دیکھ رہی ہے اور اگر جلد کچھ نہ کیا گیا تو وہاں ہونے والے معاشی و انسانی بحران کو نہیں روکا جاسکے گا۔ اس سے قبل پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ اب افغانستان کے معاملے پر ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہییں۔
اجلاس سے وزیر اعظم عمران خان نے مزید کیا کہا؟
کانفرنس میں شریک باقی وزرا کے برعکس وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنا خطاب فی البدیہ کیا۔ انھوں نے کاغذ یا فائل دیکھے بغیر شرکا کی طرف دیکھ کر تقریر کی۔
اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا نہیں ہے، وہاں سالہا سال کرپٹ حکومتیں رہیں، افغانستان کےحالات کی وجہ سےسب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا، جہاں 80 ہزار کے قریب لوگ دہسشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ اور اگر دنیا نےاقدامات نہ کیے تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ سب سےبڑا انسانی المیہ ہو گا۔
اپنی تقریر کے دوران وزیرِ اعظم نے بارہا امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے افغان طالبان پر پابندیاں لگا کر پیچیدگیاں بڑھانے کے بارے میں بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت ان پابندیوں کا براہِ راست اثر وہاں کے عوام پر پڑ رہا ہے۔’
خیال رہے کہ حال ہی میں وزارتِ خارجہ کے دفتر میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو او آئی سی اجلاس کے بارے میں بریفنگ دی۔ اس دوران انھوں نے کہا کہ ‘ہم طالبان کے ترجمان نہیں ہیں۔ بلکہ توقع رکھتے ہیں کہ عالمی برادری افغان طالبان کو سنے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرے۔ جبکہ افغان طالبان سے امید ہے کہ وہ عالمی برادری کے خدشات کو سمجھیں گے۔’
’آج صرف انسانی بحران پر بات ہو گی، انسانوں پر بات ہو گی‘
اتوار کے روز او آئی سی کا اجلاس شروع ہونے سے قبل جب ان سے سوال کیا کہ کیا امداد کے بعد طالبان کو قبول کرنے کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے؟ تو انھوں نے دو ٹوک جواب دیا کہ ‘آج صرف انسانی بحران کے بارے میں بات ہوگی، انسانوں پر بات ہوگی۔’
اسی طرح افغانستان میں طالبان حکومت کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اجلاس میں دس منٹ کے وقفے کے دوران کہا کہ ‘افغانستان میں اس وقت اقتصادی مسائل ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ حکومت اور امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہماری توقع ہے کہ آج افغانستان کے معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ ہوجائے۔’
واضح رہے کہ اس سے پہلے نومبر میں پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے امیر خان متقی نے ایک کانفرنس کے دوران امریکہ کی پالیسیوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘زور زبردستی کے حربے نہ 20 سال پہلے چل سکے تھے اور نہ اب چل سکیں گے۔ ہم نے کبھی امریکی صدر بائیڈن کو نہیں کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کو اپنی کابینہ کا حصہ بنائیں۔ آپ کو افغانستان آنے پر پتا چلے گا کہ وہاں خواتین کو کتنے حقوق حاصل ہیں۔’
امیر خان متقی کے بیان سے افغانستان کے وہ تمام لوگ اختلاف رکھتے ہیں جو افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کررہے ہیں۔
ایک روز قبل سنیچر کے روز آئی سی آر سی کے ڈائریکٹر رابرٹ ماردینی نے بھی بی بی سی سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ‘اس وقت زمینی راستے کے ذریعے لوگوں تک پہنچنا کافی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ہم طالبان سے 30 سال سے بات چیت کرتے آ رہے ہیں تاکہ لوگوں تک امداد پہنچنے میں دقت نہ آئے۔ لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مشکلات کا سامنا بہت ہے۔’
اتوار کو افغانستان کے علاوہ، تقریر کرنے والے تمام وزرا نے فلسطین میں جاری شورش میں فلسطینیوں کا ساتھ دینے کا اعادہ کیا۔
اپنی تقریر کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے پارلیمان میں بیٹھے مختلف مسلم ممالک کے وزراِ خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ فلسطین ہو یا کشمیر، ہمیں ان کے حقوق کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کرنی ہوگی۔’
وزیرِ اعظم سے پہلے اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر ڈاکٹر محمد الجاسر نے کہا کہ ‘صرف امداد دینا کافی نہیں ہے۔ اس وقت افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔ جبکہ افغانستان میں بننے والی حکومت سے توقع ہے کہ وہ خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کی پاسداری کریں گے۔’
• سحر بلوچ
• بی بی سی اردو ڈاٹ کام
آپ کی رائے