دہلی سے ملحق گڑگاؤں میں پھر سے جمعے کی نماز کے خلاف مظاہرہ

دہلی سے ملحق گڑگاؤں میں پھر سے جمعے کی نماز کے خلاف مظاہرہ

انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحقہ علاقے گڑگاؤں میں جمعے کی نماز پر تنازع تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق پہلے شہر کے سیکٹر 47 میں نماز کے حوالے سے کئی ہفتے ہنگامہ رہا اور اب حال ہی میں کچھ ویسا ہی سیکٹر 12-اے کے چوک پر دیکھا گیا ہے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہیں اور گرما گرم مباحثہ جاری ہے اور اس کے تحت ‘ایز اے ہندو’، ‘نماز’، اور اداکارہ سوارا بھاسکر بھی ٹرینڈ کر رہی ہیں۔
انڈیا کے مقامی اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کے مطابق گڑگاؤں کے سیکٹر 12-اے میں جمعے کی نماز کے دوران تقریباً تین درجن مظاہرین وہاں پہنچ گئے جہاں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ ان میں سے کچھ سخت گیر ہندو تنظیم بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے بھی تھے۔
پولیس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مظاہرین نے نماز کے دوران ‘جے شری رام’ اور ‘بھارت ماتا کی جے’ کے نعرے لگائے۔
احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ’غیر مقامی لوگ‘ چوک پر ‘غیر قانونی’ طریقے سے نماز ادا کر رہے تھے۔
مظاہرین نے دھمکی دی ہے کہ اگر اگلے جمعہ کو اسی جگہ نماز ادا کی جاتی ہے تو کوئی ‘ناخوشگوار واقعہ’ رونما ہوسکتا ہے اور یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہو گی۔
اخبار نے پولیس ذرائع اور ضلعی انتظامیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیکٹر 12-اے میں نماز کے لیے اس جگہ کا انتخاب وہاں رہنے والے لوگوں کی رضامندی سے کیا گیا تھا۔

یہ پہلا واقعہ نہیں
گڑگاؤں میں نماز جمعہ کے اجتماع کے خلاف احتجاج اور سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے مظاہرے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ایسے مظاہرے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ 18 مئی سنہ 2018 کو انتظامیہ نے ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے ساتھ بات چیت کے بعد گڑگاؤں کے 37 مقامات پر نماز کی منظوری دی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہاں ایک سال سے زائد عرصے سے نماز پڑھی جا رہی ہے اور اب تک اس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ انتظامیہ نے صرف ایک دن کے لیے نماز کی اجازت دی تھی اور وہ بھی اس شرط پر کہ اس سے مقامی لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔
راجیو نگر کے ایک رہائشی نے اس سلسلے میں پولیس کو ایک تحریری شکایت پیش کی ہے جس پر کئی مظاہرین کے دستخط ہیں۔ خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کچھ عرصے سے ایسے لوگ جو قریبی علاقوں کے رہائشی نہیں ہیں سیکٹر12-اے کے چوک پر نماز پڑھ رہے ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ انھیں ‘شک ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیشی یا روہنگیا ہیں۔ ان کے شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے اور ایک تحریری فہرست بنائی جانی چاہیے۔‘
خط میں لکھا گیا ہے کہ اس سے مقامی لوگوں میں غصہ ہے، جو تشدد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
گذشتہ ایک ماہ سے گڑگاؤں کے سیکٹر 47 میں نماز کے حوالے سے ایک ایسا ہی تنازع جاری تھا لیکن پولیس اور انتظامیہ کی مسلسل کوششوں اور سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے بعد اب پرامن طریقے سے نماز ادا کی جا رہی ہے۔
انڈين ایکسپریس کے رپورٹر پروین سنگھ چڈھا نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایک مخصوص جگہ پر نماز پڑھ رہے ہیں جبکہ پولیس کی موجودگی میں مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں۔
اس ویڈیو کو ٹویٹ کرتے ہوئے اداکارہ سوارا بھاسکر نے لکھا کہ ’میں اپنے ہندو ہونے پر شرمندہ ہوں۔‘
اس کے بعد بہت سے لوگوں نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ امریکہ میں مقیم معروف تاریخ دان آڈری ترشکی نے لکھا: ‘ایز اے ہندو’ دراصل اس لیے ٹرینڈ کر رہا ہے کیونکہ ایک ہندو نے انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم پر آواز اٹھائی ہے۔
اب دائیں بازو کے حامیان ‘ایز اے ہندو’ کا استعمال ظلم و ستم کو جائز ٹھہرانے اور ہندوؤں کو جگانے کے لیے کرنا شروع کیا کہ وہ بہت روادار ہیں۔’
اس کے ساتھ انھوں نے اسی سلسلے میں بہت ساری وضاحتیں کی ہیں کہ کس طرح سنہ 2021 میں ہندو کی تعریف کی جا رہی جو کہ بہت مختلف ہے۔ آڈری ٹرشکی کے جواب میں بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ ‘ایک ہندو کے ناطے مجھے آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
اداکارہ سوارا بھاسکر کے ٹویٹ کے بعد زیادہ تر ٹویٹ میں انھیں ٹرول کیا گیا ہے۔ وہ پہلے بھی اپنے موقف کی وجہ سے دائیں بازو کے نشانے پر رہی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ وہ صرف ایک دن کے لیے ہندو ہوتی ہیں اور اس دن بھی یہ کہنے کے لیے کہ میں ہندو ہونے پر شرمندہ ہوں۔ بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ انھیں اپنے ہندو ہونے پر فخر ہے اور ‘جے شری رام کا نعرہ لگانے پر فخر ہے۔’
براؤن برو نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘جو لوگ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے مظالم پر چیخ رہے تھے وہ اب نماز سے ڈر گئے اور وہی چیز کر رہے ہیں جو بنگلہ دیشی قدامت پسند کر رہے تھے۔ شرم کرو تم سانپوں۔‘
بہت سے صارفین نے لکھا ہے کہ سڑکیں نماز پڑھنے کے لیے نہیں ہیں۔ جبکہ دیگر نے تبصرے کیے کہ اس کے لیے جگہ مخصوص ہیں۔
ان کے جواب میں این ممبئیکر نامی ایک صارف نے لکھا: ’بہت آسان ہے۔ مسجدیں توڑنا بند کریں مسلم سڑکوں پر نماز پڑھنا بند کر دیں گے۔ ہر بار ہندو-مسلم پروپگینڈہ لے کر نہ آئيں، یہ ملک ہر شہری کا ہے اور انسانیت کی قربانی نہ دیں جو ہمارے بڑوں نے قائم کی ہے، یہ سیاست نفرت پھیلاتی ہے۔‘
بی بی کے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق ہندو گروپوں اور تنظیموں کی جانب سے کسی کمپنی، فرد یا صنعتی گروپ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم جلائی جاتی ہے۔
الگ الگ جگہ بیانات دیے جاتے ہیں ۔ مظاہرے اور احتجاج کیے جاتے ہیں۔ دھمکیوں اور کبھی کبھی شو رومز اور سنیما گھروں یا شوٹنگ کے سیٹس پر حملوں سے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کے نظریات کے مطابق عمل کیا جائے ورنہ اقتصادی ںقصان اٹھانے کے تیار رہیں۔ اس طرح کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بہت سے صارفین نے حال ہی میں فلم سٹار عامر خان کو بھی نشانہ بنایا ہے کہ وہ دیوالی پر پٹاخے پھوڑنے کے خلاف تو بولتے ہیں لیکن سڑک پر نماز پڑھنے کے خلاف نہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں