شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

افغان قوم ’نفاذِ شریعت‘، ’نفاذِ عدل‘ اور ’کرپشن کے خاتمے‘ پر اکٹھی ہوجائے

افغان قوم ’نفاذِ شریعت‘، ’نفاذِ عدل‘ اور ’کرپشن کے خاتمے‘ پر اکٹھی ہوجائے

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے تیرہ اگست دوہزار اکیس کو افغانستان کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے افغان حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام کو مشورہ دیا سب ’مفاہمت اور اجماع‘ کی راہ اپنائیں اور نفاذِ عدل و شریعت اور کرپشن کے خاتمے کے لیے متحد ہوجائیں۔


شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: کئی عشروں سے افغان عوام لڑائی اور بدامنی سے دست و گریبان ہیں۔ یہ اسلامی ملک مصالحت، امن اور خوشحالی کے محتاج ہے۔

انہوں نے مزید کہا: موجودہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ حقائق کا انکار ہے۔ یہ مان لینا چاہیے کہ طالبان افغانستان میں ایک حقیقت ہیں جس طرح اس ملک میں دیگر حقائق بھی موجود ہیں۔ اسی تحریک کی قربانیوں اور جہاد سے مغربی قابض افواج کو افغانستان چھوڑنا پڑا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے طالبان کی عوامی قوت کو ان کی تیزی سے پیش قدمی کی وجہ یاد کرتے ہوئے کہا: بڑی تیزی سے طالبان پیش قدمی کرکے متعدد علاقوں پر قبضہ کرتے چلے آرہے ہیں؛یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس تحریک کی جڑیں عوام میں پیوست ہیں اور انہیں خدا کی مدد و نصرت اور عوام کی حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے مزید کہا: طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی شریعت اور سیرت النبی ﷺ کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ میں پوری جرات کے ساتھ کہتاہوں اور قسم کھانے کے لیے بھی تیار ہوں کہ پوری دنیا میں قرآن و سنت سے بہتر کوئی حکم نہیں ہوسکتا۔ بہترین حکومت وہی ہے جو قرآن و سیرت پر بن چکی ہو۔ لہذا طالبان کا یہ مطالبہ اور دعویٰ افغان قوم کے لیے جو ایک مسلم قوم ہے، قابلِ فہم ہے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: میرے خیال میں افغانستان سمیت دیگر ممالک اگر قرآن پاک، نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اعلیٰ ظرفی سے بخوبی استفادہ کریں، یہ ان عظیم ہستیوں کی تعلیمات سے فائدہ اٹھائیں، ان شاء اللہ ان ملکوں میں ایسا امن قائم ہوجائے کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ ملے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: اگر طالبان قرآن و سیرت اور خلفائے راشدین کی اعلی ظرف سے استفادہ کریں اور اس میدان میں کامیاب ہوجائیں، افغان قوم جو کئی عشروں سے خانہ جنگی اور بدامنی و لڑائی سے نالاں ہے، امن و سکون کو بھی تجربہ کرجائے گی۔

صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: موجودہ طالبان ماضی کے طالبان سے کافی مختلف ہیں، انہوں نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور عام معافی کا اعلان کرکے ان لوگوں کو بھی بخش دیا ہے جو طالبان کے خلاف لڑتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم قتل و خونریزی اور بربریت نہیں چاہتے، بلکہ انصاف فراہم کرکے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: طالبان نے یہ بھی کہاہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور سب کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی جانب سے کسی بھی ملک کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ یہ بھی ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر طالبان کسی طورپر شدت پسندی کا مظاہرہ کرکے غلط اقدام اٹھائیں، سب قابلِ اصلاح ہیں؛ افغانستان سمیت دنیا کے علمائے اسلام انہیں یاددہانی کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کریں گے اور حالات کے تقاضوں اور خواتین کے حقوق کے مسائل انہیں یاد دلائیں گے۔

انہوں نے سب افغان جماعتوں اور شخصیات و افراد کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کچھ عناصر جانبدارانہ تبصرے پیش کرکے انہیں اشتعال دلانا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد افغانستان میں خانہ جنگی پیدا کرنا ہے۔ ان عناصر کی باتوں میں نہ آئیں اور نفاذِ شریعت و عدل پر اتفاق کرکے فساد اور کرپشن کے خاتمے پر اکٹھے ہوجائیں، اپنے ملک کی خوشحالی و ترقی کے لیے یکجا ہوجائیں۔

نئی کابینہ میں اہل سنت کو جگہ دینا ذمہ دارانِ مملکت کی اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہوگی
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں نئی حکومت کی کابینہ کے اعلان پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: نئی کابینہ کے ارکان اس حال میں پارلیمنٹ کو منظوری کے لیے بھیج دیے گئے ہیں کہ انقلاب کے بعد اب تک اہل سنت برادری کا مطالبہ چلا آرہاہے کہ ان کے حقوق پر توجہ دی جائے اور حکومتی کابینوں میں انہیں شامل کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا: ہمارے لیے شیعہ و سنی کا فرق نہیں ہے، لیکن کم از کم ایک سنی شہری کابینہ میں شامل ہوتا، تو یہ اعلیٰ حکام اعلی ظرفی کا ثبوت ہوتا اور اتحاد و قومی بھائی چارہ کو اس سے تقویت ملتی۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کے مثبت نتائج نکلتے۔ اسی طرح اگر کابینہ میں کوئی خاتون ہوجاتی، یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ ہمارے ملک میں خواتین کو اہمیت دی جاتی ہے اور یہ ایک مثبت پہلو ہوتا۔

مولانا عبدالحمید نے امید ظاہر کی حکام نئی کابینہ کے بارے میں مزید سوچیں اور فراخدلی و دوراندیشی کا مظاہرہ کریں جو ایک اچھی صفت ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں زاہدان کی سابقہ سٹی کونسل اور میئر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زاہدان شہر کے سابق میئر کو محنتی اور پرزور شخصیت قرار دی۔

جمعہ کے خطبہ کے ایک حصے میں دارالعلوم زاہدان کے دو اساتذہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن محبی رحمہ اللہ کے انتقال پرملال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا: گزشتہ ہفتہ میں دارالعلوم زاہدان کے سینئر استاذ حضرت مولانا عبدالرحمن محبی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے جو صوبہ اور ملک میں ایک معروف شخص تھے۔ آپؒ مولانا عبدالعزیزؒ (بانی دارالعلوم زاہدان) کی دعوت پر یہاں آئے تھے اور چالیس سال تک تدریس سے وابستہ رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند فرمائے۔

انہوں نے مزید کہا: جناب ڈاکٹر ادہم سپاہی بھی جو دارالعلوم زاہدان میں ہمارے ساتھی تھے اور عصری و دینی جامعات میں طلبہ کے لیے ایک جانے پہچانے فرد تھے، گزشتہ ہفتہ میں انتقال کرگئے۔ ان کی مغفرت اور رفع درجات کے لیے بھی دعاگو ہیں۔

حضرت حسینؓ کا قیام نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کی کامیابیوں کی حفاظت کے لیے تھا
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدانی نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بیان کے پہلے حصے میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے فضائل و مناقب کا تذکرہ کرتے ہوئے ’نفاذِ عدل‘ اور ’نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ‘ کی کامیابیوں کی حفاظت کو اس جلیل القدر صحابی کے قیام کی وجہ قرار دی۔

انہوں نے کہا: حضرت حسین رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کے گھر میں اور حضرت علی و فاطمہ ؓ کے گود میں تربیت پائی۔ انہیں مسائل کا پتہ تھا۔ حضرات حسنین بیک وقت اہل بیت رسولﷺ اور صحابہ میں شامل ہیں جن کی تربیت نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا۔ اہل بیت سے سب مسلمانوں کو محبت ہے اور اس میں شیعہ و سنی کا فرق نہیں ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: حضرت حسین ؓ کا قیام ایک تاریخی قیام تھا؛ ان کا مقصد حکومت و قوت حاصل کرنا نہیں تھا۔ آپؓ چاہتے تھے عدل نافذ ہو اور ظالم سے مظلوم کا حق لیا جائے اور سب فیصلے اللہ کے قانون کے مطابق ہوں۔

انہوں نے مزید کہا: حضرت حسینؓ نے ایسے لوگوں کے خلاف قدم اٹھایا جو نالائق، آمر اور عاجز تھے۔ یہ حادثہ ایک ایسے دور میں پیش آیا جب نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی کامیابیاں خطرے میں تھیں۔

مولانا عبدالحمید نے حضرت حسینؓ کی سیرت اور طریقے کو ’رہ نما‘ یاد کرتے ہوئے کہا: حضرت حسینؓ ہم سب کے لیے رول ماڈل اور تقویٰ کے نمونے ہیں۔ اہل بیتؓ کے تعلقات خلفائے راشدین سے بہت اچھے تھے اور محبت بھری زندگی گزار رہے تھے۔ مسلم امہ کو چاہیے ان بزرگوں کے نقشِ قدم پر چل کر اتحاد و بھائی چارہ میں ان کی پیروی کریں۔ ہمیشہ، خاص کر ان ایام میں ایک دوسرے کا احترام کریں۔

انہوں نے ایران کے طول و عرض میں کورونا وائرس کی وجہ بڑھتی ہوئی اموات پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے شہریوں کو نصیحت کی اپنی اور دوسروں کی صحت کی خاطر حفظانِ صحت کے اصولوں کی پابندی کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں