شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے چار جون دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ میں نفاذِ عدل و انصاف اور آئین پر عمل کی تاکید کرتے ہوئے ان لوگوں کے الزام کو مسترد کیا جو اہل سنت ایران کو ”زیادہ خواہ“ کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا اہل سنت صرف اپنے جائز قانونی حقوق چاہتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایرانی بلوچستان کے صدر مقام میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمارے مطالبات پوری قوم سے متعلق ہیں؛ اگر یہاں عدل کا راج ہو، سب لوگ سکون سے رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم سب مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں بلکہ سب انسانوں کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں، ایران میں رہتے ہوئے ہم اپنی ہی قوم سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ ہم قومی مطالبات کو لسانی و مسلکی مطالبات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اگر کسی یہودی، عیسائی، بہائی، درویش یا ایران میں رہنے والے کسی بھی لسانی و مذہبی برادری سے تعلق رکھنے والے شخص کے حق میں کوئی ظلم ہو، ہم اس سے غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ سب ایرانی شہری ہیں اور سب کے حقوق محفوظ ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: سب کو اپنی سوچ اور نگاہیں قومی اور مسلک و قومیت سے بالاتر کرنا چاہیے۔ مسلکی اور قومیتی نگاہیں دیگر مسالک و قومیتوں کو ناراض بنانے کی باعث بنتی ہیں۔ حاکم کو چاہیے اپنی سوچ اور افکار کو نبی کریم ﷺ کی افکار کی مانند بنائے جن کی نظر میں ایران سے آنے والے سلمان فارسی جس کا کوئی رشتہ دار مدینہ میں نہیں تھا، اہل بیت میں شامل ہے: ”سلمان منا اہل البیت“۔ سلمان ہم اہل بیت میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حاکم کی سوچ ہر قومیت اور مسلک و مذہب سے بالاتر ہونی چاہیے۔ تنگ نظری کا انجام اچھا نہیں ہوتا، اس سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اہل سنت ایران کا مطالبہ ہے کہ اس ملک میں انصاف اور عدل کا بول بالا ہو، قومی مفادات کو ترجیح دی جائے، قانونی آزادی (اظہارِ رائے کی آزادی) فراہم کی جائے اور عوامی مطالبات پر توجہ دی جائے۔
انہوں نے کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایران کے اہل سنت زیادہ خواہ ہیں اور حصہ مانگتے ہیں، حالانکہ اہل سنت ایران اپنے جائز حقوق چاہتے ہیں۔
ممتاز سنی عالم دین نے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے آرٹیکل پندرہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا: جس طرح آئین میں یہ نہیں آیاہے کہ صدر مملکت کسی مخصوص لسانی گروہ سے ہو، یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ صدر مملکت کسی مخصوص مسلک کے پیروکار ہو؛ اگر کسی سنی اکثریت ملک میں ایسا قانون ہو کہ صرف سنی ہی صدر بن سکتے ہیں، ہم اس قانون کو بھی غلط سمجھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: آئین میں آیاہے کہ اہل سنت ایران میں صدر نہیں بن سکتے ہیں، ہم اس قانون پر احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں اور اس شق کو ملک میں امتیازی سلوک کی بنیاد سمجھ کر اس کی اصلاح کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن آئین کے مطابق اہل سنت کو بطورِ وزیر، نائب صدر اور صوبائی گورنر متعین کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ تینتالیس سالوں میں ایک بھی سنی شہری جو وزارت، نائب وزیر اور گورنر کے اہل ہو حکام کو نہیں ملا؟ یا مسلکی اور دیگر رکاوٹوں کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوا ہے؟!
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم کہتے ہیں ہم سب ایرانی ہیں اور ایک ہی کشتی کے سواری ہیں؛ اس کشتی کے مسافروں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے؛ کیا یہ بات انصاف سے دور اور سینہ زوری ہے؟
انہوں نے مزید کہا: اہل سنت ایران کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ عدل نافذ ہو اور قانون کا بول بالا ہو۔ کیا قانون ہمارا قومی معاہدہ نہیں ہے اور حکام سمیت ہم سب اس قانون کی پابندی کا وعدہ نہیں کرتے ہیں؟
اہل سنت ایران کے مذہبی و سماجی رہ نما نے واضح کرتے ہوئے کہا: اہل سنت ایران عزت اور احترام چاہتے ہیں، وہ گوشہ نشینی نہیں چاہتے ہیں۔ سنی برادری گوشہ نشینی کو قبول نہیں کرسکتی، چونکہ وہ اس ملک کے مالک ہیں۔ انہوں نے اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور اب بھی اپنے وطن کی خاطر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
نئے صدر سے ایرانی قوم کے مسائل حل کرانے کی توقع رکھتے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان میں آنے والے صدارتی انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: امید ہے آنے والے صدارتی اور لوکل کونسلز کے انتخابات میں بہترین افراد کا انتخاب ہوجائے۔ نئے صدر ایسے شخص چنے جائیں جن کی اہلیت زیادہ ہو اور وہ ایرانی قوم سمیت سب قومیتوں اور مسالک خاص کر اہل سنت کے مسائل کو حل کرسکے اور ملک میں اتحاد و یکجہتی قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
مولانا عبدالحمید نے نعرے کے بجائے عمل پر تاکید کرتے ہوئے کہا: ایرانی قوم ’نعرے‘ نہیں چاہتی ہے، چونکہ ماضی میں اتحاد کے نعرے سمیت دیگر مسائل پر بہت نعرے سننے میں آئے ہیں، لیکن چونکہ ان نعروں کے ساتھ عمل نہیں تھا، ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لہذا نعرے کے بجائے عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں بانی انقلاب کی سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: بانی انقلاب کی یادگار بہت ہیں، ان کی یہ بات بہت اہم ہے کہ ’شیعہ و سنی بھائی بھائی ہیں اور حقوق میں مساوی ہیں۔‘ جب تک حقوق فراہم نہیں ہوں گے، بھائی چارہ بھی پائیدار نہیں ہوگا۔
آپ کی رائے