مولانا عبدالحمید جامعۃ الحرمین الشریفین چابہار کے اساتذہ کی مجلس میں:

ذمہ داری کا احساس، تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ علما کی اہم ذمہ داریاں ہیں

ذمہ داری کا احساس، تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ علما کی اہم ذمہ داریاں ہیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے چوبیس مارچ دوہزار اکیس کو جامعۃ الحرمین الشریفین چابہار میں جامعہ ہذا کے اساتذہ و علما کی مجلس میں خطاب کرتے ہوئے موجودہ حالات میں علمائے کرام کی اہم ذمہ داریوں کی نشاندہی کی۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے ذمہ داری کے احساس کو علما کی اہم ذمہ داریوں میں شمار کرتے ہوئے کہا: علما کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ جو عالم دین اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر کسی علاقے میں دینی خدمت کرے، اس کی محنتیں ضرور رنگ لائیں گی اور اس علاقے کے لوگ سنتوں، واجبات اور فرائض پر عمل پیرا ہوجائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا: جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبوت کی بھاری ذمہ داری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کاندھوں پر آئی، انہوں نے اللہ سے فراخدلی، کام میں آسانی، بیان و تفہیم اور اپنے اہل سے وزیر و معین کی درخواست کی۔
مولانا عبدالحمید نے برداشت کو اعلی ظرفی کی نشانی یاد کرتے ہوئے کہا: اگر علما فرخدلی و برداشت سے محروم ہوں، وہ دعوت کا میدان چھوڑ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے گریز کرجائیں گے۔ دینی خدمات کی راہ میں برداشت زیادہ ہو؛ سختیوں، تلخیوں، دھمکیوں اور پریشانیوں کو برداشت کرنی چاہیے۔ کوشش کریں لوگ آپ کی باتیں سمجھ سکیں۔
انہوں نے دعوت کی راہ میں معین و مشیر کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: داعی کو کوشش کرنی چاہیے اپنے کام کے لیے اچھے ساتھی اور ہمدل بھائی تلاش کرے جو اسے ساتھ دیں۔ کامیاب داعی وہ ہے جس کے گھروالے بھی اس کے ساتھ ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے اللہ کی یاد اور ذکر پر زور دیتے ہوئے کہا کامیاب اور موثر خدمت کرنے والے علمائے کرام اور داعیانِ دین رب کی یاد کثرت سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ کا ذکر، تہجد اور تلاوت سے علما کی روحانی تقویت ہوتی ہے۔
تعلیم و تعلم کی اہمیت واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا: علمائے کرام سب کی تعلیم کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ معاشرے کے تمام افراد اور اکائیوں کو قرآن سکھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن انسان کی ہدایت و حفاظت اور مشکلات سے اس کی نجات اور فتنوں سے حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے۔
دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں علما کی محنت اور شرکت پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: دعوت و تبلیغ علما کی دیگر ذمہ داری ہے۔ اگر علما مدارس میں بیٹھ کر معاشرے سے لاتعلق اور بے خبر رہیں، ضرور معاشرہ برائیوں میں ڈوب جائے گا اور گناہ و معاصی پھیل جائیں گے۔ حدود الہی کی حفاظت علما کی ذمہ داری ہے اور شریعت پر عمل کے حوالے سے انہیں حساس ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: جو لوگ صغیرہ یا کبیرہ گناہوں پر اصرار کرتے ہیں، ان کی رہنمائی کی ذمہ داری علما پر عائد ہے۔ معاشرے سے مضبوط تعلق رکھنا علما کے لیے بہت ضروری اور اہم ہے۔ شہروں، بستیوں اور مختلف جگہوں جاکر عوام کے حالات سے باخبر رہیں۔ پوری رات سونے میں نہ گزاریں؛ ایک حصہ عبادت اور دعا کے لیے خاص کرنا چاہیے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: اگر علما دین کی خاطر نکلیں، اللہ تعالیٰ قدم قدم پر ان کی حمایت فرمائے گا۔ دین کی خاطر نکلنے میں برکت ہی برکت ہے۔ اگر علما متحرک نہ رہے، وہ مرجائیں گے۔ علما اکٹھے ہوکر مشورت کریں۔ اگر علما عوام کے پاس نہ جائیں، شیطان عوام کے پاس جاکر انہیں گمراہ کردے گا۔
مولانا عبدالحمید نے آخر میں علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: علما اپنے خطابوں میں اعتدال کا خیال رکھیں، خیرخواہی، استدلال اور نرم لہجے سے بات کرکے لوگوں کو خطاب کریں۔ دین الہی کے لیے محنت کریں اور اپنی اور عوام کی نجات کے لیے کوشش جاری رکھیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں