اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت اور دینی مدارس کے سب سے بڑے بورڈ (شورائے ہم آہنگی مدارس دینی اہل سنت سیستان وبلوچستان) کے صدر نے اعلی حکومتی عہدیداروں سے اصحابِ مدارس اور سینئر علمائے کرام کی ملاقات و گفتگو کے بعد ’سنی آن لائن‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاہے مذکورہ ملاقات میں علمائے کرام نے اہل سنت کی مذہبی آزادی اور دینی مدارس کے استقلال پر زور دیاہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا: دینی مدارس کے استقلال اور مذہبی امور میں آزادی علمائے اہل سنت کی سب سے اہم پریشانیوں میں شامل رہے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے آپس میں ایک نشست کا اہتمام کیا اور پھر آیت اللہ محامی (صوبہ میں سپریم لیڈر کے نمائندہ) سے ملاقات کی جو دوستانہ اور خوشگوار فضا میں تھی۔
انہوں نے مزید کہا: علمائے کرام نے سپریم لیڈر کے نمائندے سے واضح کیا کہ آئین کی شق نمبر بارہ میں تعلیمی امور میں اسلامی مسالک کو آزادی دی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں خدشہ ہے کہیں دینی مدارس کے استقلال ختم نہ ہوجائے اور ان کے مذہبی امور میں مداخلت ہوجائے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: علما اور مدارس کے مہتممین نے زور دیا کہ کسی بھی محکمہ اور سرکاری ادارے کو مذہبی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے اور اہل سنت کی مذہبی آزادی ہر حالت میں محفوظ رہنی چاہیے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ علمائے اہل سنت اعتدال پر یقین رکھتے ہیں اور انہوں نے ملک و حکومت کے لیے کوئی نقصان کا سامان نہیں کیا ہے۔ وہ اتحاد بین المسلمین اور قومی سلامتی کی حفاظت پر یقین رکھتے ہیں اور اسی راہ پر گامزن ہیں۔
صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان و بلوچستان نے مزید کہا: مذکورہ ملاقات میں کہا گیا کہ مدارس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا حکومت کا حق ہے تاکہ انہیں اطمینان ہوجائے یہاں قومی مفادات کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایاجارہاہے اور ہم آئینی حقوق کے دائرے میں کام کررہے ہیں، لیکن مداخلت کی اجازت کسی بھی صورت میں نہیں دی جاسکتی ہے۔
ایران میں اہل سنت کے دینی مدارس کے لیے حکومتی بورڈ (شورائے مدیریت و برنامہ ریزی) کے منشور کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: دینی مدارس کے حکومتی بورڈ کا منشور مداخلت کے زمرے میں آتاہے اور اس میں وارد شقوں کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔لیکن ان مدارس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ماضی کی طرح درست اور ہمیں منظور ہے۔
انہوں نے مزید کہا: آیت اللہ محامی نے بھی اپنی گفتگو میں مدارس کے استقلال باقی رکھنے کی حمایت کی اور مداخلت سے پرہیز پر زور دیا۔ اس نشست میں بھی دوطرفہ گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدارس کی مانیٹرنگ کی حدود اور مقدار پر طرفین نے موافقت کی اور مدارس کے استقلال اور قانونی آزادیوں پر زور دیا گیا۔
یاد رہے صوبہ سیستان و بلوچستان ایران کا دوسرا بڑا صوبہ ہے جس میں اہل سنت کی اکثریت ہے۔ اس صوبے میں ستر سے زائد دینی مدارس سرگرم ہیں جبکہ خواتین کی دینی تعلیم کے لیے سرگرم مدارس کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان مدارس کا نظام تعلیم برصغیر کے مدارس کی طرح درس نظامی ہے۔
آپ کی رائے