الہ آباد سینٹرل یونیورسٹی کی وائس چانسلرسنگیتا سریواستوا نے درخواست دائرکی کہ اونچی آوازمیں اذان پرپابندی عائد کی جائے۔
یہ پہلی بارنہیں جب بھارت میں اذان سے متعلق آوازیں نہ اٹُھی ہوں، کسی نہ کسی ہندو انتہا پسند تنظیم سمیت عام ہندوشہریوں کیجانب سے اذان پرپابندی سے متعلق کچھ نہ کچھ کہا جاتا رہا ہے۔
اس بارالہ آباد سینٹرل یونیورسٹی کی وائس چانسلرسنگیتا سریواستوا نے ضلعی انتظامیہ کوشکایت درج کرائی جس میں انہوں نے کہا کہ ہرروزصبح ساڑھے پانچ بجے اونچی آوازمیں دی جانے والی فجرکی اذان سے نیند میں خلل آتا ہے اورسرمیں درد ہوتا ہے جس کے باعث ان کا کام متاثرہوتا ہے لہذا فجرمیں اونچی آوازمیں اذان پرپابندی عائد کی جائے۔
وائس چانسلر نے مزید کہا کہ وہ کسی بھی مذہب، ذات یا نسل کے خلاف نہیں لیکن اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکلنا ضروری ہے۔ وائس چانسلرکی جانب سے صرف مائیک ہی نہیں بلکہ رمضان میں تیزآوازمیں مخلتف اعلانات سے متعلق بھی شکایت درج کرائی گئی۔
مسجد کی انتظامیہ نے وائس چانسلرکی شکایت کے بعد لاؤڈ اسپیکر کی آوازکم کردی جب کہ مائیک کی سمت بھی وائس چانسلرکی رہائش گاہ کی جانب سے موڑکردوسری جانب کردی۔ اس کے باجود اذان کی اونچی آوازکولے کرمختلف سیاسی جماعتوں نے اذان پر پابندی کے خلاف شہر میں مظاہرے بھی کیے۔
دوسری جانب بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وائس چانسلرکی اس شکایت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں لوگ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں، یہاں مسجدوں سے اذانیں اورمندروں سے بھجن فضا میں گونجتے رہتے ہیں۔ اس لیے ان باتوں سے انتہا پسندی کی ہوا کا پرچار نہ کیا جائے تو بہترہے۔
آپ کی رائے