بین الافغانی مذاکرات میں فریقین فراخدلی، خیرخواہی اور عفو سے کام لیں

بین الافغانی مذاکرات میں فریقین فراخدلی، خیرخواہی اور عفو سے کام لیں

زاہدان (سنی آن لائن) شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بارہ مارچ دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ میں افغان امن مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فریقین کو مشورہ دیا کہ وہ پرامن افغانستان کی خاطر فراخدلی، عفو اور جذبہ خیرخواہی کا مظاہرہ کریں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: انتہائی افسوس کی بات ہے کہ برادر ملک افغانستان کئی سالوں سے خانہ جنگی، لڑائیوں اور بعض سپر پاورز کی قبضہ گیریوں کی آگ میں جل رہاہے۔
انہوں نے امن کی کرن آشکار ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اب جب امن کی امید نظر آرہی ہے، افغان حکومت اور طالبان سمیت جو ان مذاکرت کے دو فریق ہیں، سب کو جان لینا چاہیے کہ مصالحت کے بغیر قیامِ امن کا کوئی امکان نہیں ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: یہ افغانستان کے نیک اور شریف لوگوں کا حق ہے کہ وہ امن اور آرام کی زندگی گزاریں اور ایک دوسرے سے مل کر اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے محنت کریں۔ لہذا مذاکرات کے دونوں فریق فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔ حکام اپنی چوکیوں اور سیٹوں سے گزریں، مدمقابل گروہ بھی بعض مواقف سے دستبردار ہوجائے، ورنہ اس ملک میں امن قائم نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا: امید ہے افغانستان کے فریقین دوراندیشی، فراخدلی، سمجھداری اور خیرخواہی کا مظاہرہ کریں تاکہ اس عزیز ملک میں آرامش اور امن قائم ہوجائے۔

یمنی لوگ لڑائی کے بجائے، مذاکرہ اور جامع حکومت بنانے کے لیے سوچیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں یمن کی جاری خانہ جنگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یمن یمنی لوگوں کا ہی ملک ہے، کسی اور کا نہیں۔ افسوس ہے کہ اس ملک کے حالات بہت خراب ہیں اور چھوٹے بڑے سب بھوک سے دوچار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جنگ، لڑائی اور بمباری سے صرف یمنی لوگوں کا نقصان ہوا ہے۔ اہل یمن لڑائی جھگڑے کے بجائے اکٹھے بیٹھیں اور مذاکرات کرکے ایک جامع حکومت بنائیں جس میں سب کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہو۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مسلم ممالک کے اختلافات کو ان کے اختلافات اور دوریوں کا نتیجہ یاد کرتے ہوئے کہا: مسلم ممالک کے باہمی اختلافات نے ان ملکوں کے لیے بہت بڑے اور خطرناک نتائج پیدا کیے ہیں اور اس سے دشمنوں کو گھسنے اور مداخلت کرنے کا موقع ملا ہے جو مسلمانوں کے اختلافات سے اپنے مفادات یقینی بناتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں مسلم ممالک کو متحد رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا: اتحاد کی صورت میں مشرق وسطی پرامن ہوسکتاہے۔ مصالحت، استحکام، ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور جامع حکومتوں کی تشکیل سے قیامِ امن کا امکان موجود ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں