بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیزؒ؛ کچھ یادیں (۲)

بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیزؒ؛ کچھ یادیں (۲)


اللہ تعالیٰ نے سورت الحشر کی آیت نمبر دس میں مسلمانوں کو حکم فرمایاہے کہ اسلاف کے صدق و اخلاص، اطاعت شعاری اور انابت کا اعتراف کریں اور ان کی دینی خدمات اور اسلام سے پاسبانی کو تسلیم کرتے ہوئے اسلاف کے بارے میں دلوں کو ہر قسم کی نفرت اور کینہ سے پاک صاف رکھیں۔ ان کی تعریف و مدح میں رطب اللسان رہیں۔ ان کی ممکنہ خطاؤں کے بارے میں عفو سے کام لیں۔ چونکہ جو اجتہاد کرتاہے، گاہے خطا کا ارتکاب بھی کرسکتے ہیں۔ گرنے کا خطرہ اس شخص کے لیے ہے جو چلتاہے، نہ اس شخص کے لیے جو بیٹھارہتاہے۔ چونکہ نبوی تعلیمات کے علاوہ کسی بھی شخص کی تعلیمات، افکار اور آرا خطا سے مصون و محفوظ نہیں، اسلاف اور بزرگوں کے بارے میں احتیاط اور اعتدال سے کام لینا چاہیے؛ اس حوالے سے عجلت پسندی اور ذاتی جذبات کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے۔

حضرت مولانا عبدالعزیزؒ بھی اس آیت شریفہ کے حقیقی مصداق تھے۔ آپؒ کے دل نبی کریمﷺ، خلفائے راشدین، صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم، تابعین، ائمہ مجتہدین اوردیوبند کے علمائے حقانی و ربانی کی محبت و احترام سے مالامال تھا۔ آپؒ ہمیشہ ان بزرگوں کو یاد کرتے اور انہیں اپنا محسن سمجھتے جنہوں نے ان کی تعلیم اور روحانی تربیت پر محنت کی تھی۔ آپؒ کے بعض مکتوبات سے بھی اس کا پتہ ملتاہے جو ”جذب القلوب الی ذکر المحبوب“ میں شائع ہوچکے ہیں۔

مولانا عبدالعزیزؒ حقیقی معنوں میں ایک ربانی عالم دین، حقانی عارف، خوف و خشیت، توبہ و انابت، زہد و تقویٰ، صبر، صدق و اخلاص، توکل اور استغنا، محبت الہی، ظاہری وجاہت، روحانی ہیبت، کریمانہ اخلاق، حکیمانہ اشفاق، پدرانہ عطوفت و استادانہ تادیب، لطافت و نزاکت، طہارت نفس اور شرافت نسب میں بے مثال تھے۔ آپؒ فصاحت و شجاعت، سخاوت و تواضع، مہمان نوازی اور روحانی کیفیات میں یکتائے زمانہ تھے۔
حضرت مولاناؒ کی شفقت و محبت اس حقیر کے ساتھ ان کی اپنی صلبی اولاد کی طرح تھی۔ اس دورانیہ میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور ناقابل فراموش یادیں ذہن میں موجود ہیں جن میں سے بعض کو نذرِ قارئین کرتاہوں۔

شاہ ولی اللہؒ سے خاص قلبی تعلق
علامہ شاہ ولی اللہؒ ان عظیم ہستیوں میں تھے جنہوں نے دین کی صحیح تشریح کرکے تفہیم دین اور علوم نبوی کی اشاعت میں نہ صرف اپنے زمانے میں، بلکہ پہلے اور بعد کے اعصار میں بھی بے مثال تھے۔ ان کی دینی سرگرمیاں اس قدر وسیع تھیں کہ شاید دین کا کوئی شعبہ ہو جو ان کے دائرہ خدمت سے باہر رہ چکا ہو۔ اسی لیے برصغیر ہند کے سب علمائے حق اور درست مکاتب خود شاہ ولی اللہؒ کے مکتب سے منسوب کرتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اس فکر و مکتب کا مظہر ہے۔

حضرت مولانا عبدالعزیزؒ چونکہ دارالعلوم دیوبند کے مظہر تھے اور حضرت شاہ ولی اللہؒ سے ان کا خاص قلبی تعلق تھا، ان کی کتابیں بصد شوق مطالعہ فرماتے تھے۔ بندہ ہمیشہ نایاب کتابوں کی تلاش میں رہتا؛ اس لیے انہوں نے مجھے حکم فرمایا کہ شاہ ولی اللہؒ کی کوئی بھی کتاب مل جائے، ضرور ایک کاپی انہیں پہنچادوں۔ فرماتے تھے مجھے ان کی تصنیفات بہت پسند ہیں۔ جب ”الطاف القدس فی معرفۃ النفس“ ملی، میں نے انہیں یہ کتاب پیش کی جو لطائف باطنیہ اور تصوف و عرفان کے اصلی مسائل پر مشتمل ہے۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک کتاب لکھی ہے ”تاریخ دعوت و عزیمت“ جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں دعوت و اصلاح کے بزرگوں کے حالات و سوانح عمری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پانچویں جلد حضرت شاہ ولی اللہؒ کی علمی و دینی کاوشوں اور سرگرمیوں کے لیے مخصوص ہے۔1404ء میں جب یہ کتاب چھپی، تو بندہ نے یہ کتاب حاصل کرکے اس کا مطالعہ کیا۔ پھر حضرت مولانا عبدالعزیزؒ کو یہ کتاب پیش کی جنہوں نے اس کے مطالعے کے لیے اپنے شوق کا اظہار کیا۔
جاری ہے۔۔۔

پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیزؒ؛ کچھ یادیں (۲)

  1. […] دنیا سے کوچ کرگئے۔جاری ہے۔۔۔دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں