مولانا عبدالحمید:

اسلامی انقلاب کی سالگرہ؛ مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیں

اسلامی انقلاب کی سالگرہ؛ مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایران میں اسلامی انقلاب کی 42ویں سالگرہ کے موقع پر اہل سنت زاہدان کے اجتماع برائے نماز جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ابھی تک اسلامی انقلاب کے بہت سارے اہداف باقی ہیں۔ اب موقع ہے کہ انقلاب کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔
سابقہ نظام حکومت نے اپنی قوم کی بات نہ سنی
خطیب اہل سنت زاہدان نے پانچ فروری دوہزار اکیس کو اپنے خطبے کا آغاز سورت الاعراف کی آیت 129 کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب سے بیالیس سال گزرنے والا ہے؛ انقلاب سے پہلے یہاں آمریت تھی اور لوگوں کو آزادی اور تنقید کی اجازت نہیں تھی۔ اگر کوئی کچھ کہتا اور ”اعلی حضرت“ (شاہ) سے مخالفت کرتا یا کسی اور حکومتی ذمہ دار پر تنقید کرتا، ساواک نامی سکیورٹی ادارے کے اہلکار اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈالتے اور بدترین ٹارچر کا نشانہ بناتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: سابقہ حکومت میں کسی کو تنقید اور مخالفت کا حق نہیں تھا؛ بہت سارے علما جیل میں ڈالے گئے، بشمول بانیء انقلاب جنہیں عراق بھیج کر ملک بدر کیا گیا اور موجودہ سپریم لیڈر کو ایرانشہر میں جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔حالانکہ ان میں سے کسی نے بھی مسلح اقدام نہیں اٹھایا تھا، انہوں نے صرف باتیں کرکے تنقید کی تھی، لیکن شاہ کی آمر حکومت نے ان باتوں اور احتجاج و تنقیدوں کو برداشت نہیں کی۔
نامور سنی عالم دین نے کہا: سابقہ حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی قوم، دینی مدارس، جامعات، علما اور دانشوروں کو نظرانداز کیا اور کسی کی بات پر توجہ نہیں دی۔ شاہ کے آس پاس کے لوگ اسے غلط رپورٹس دے کر انہیں خوش رکھتے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور احتجاج کرنے والے جھوٹ بول رہے ہیں اور ملک و بادشاہ کے مخالف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: شاہ جب ملک سے نکلا، بعد میں اپنی غلطی پر افسوس کرتا رہا کہ کاش اپنی قوم کی آواز سنتا اور ان کے مطالبات پر توجہ دیتا، لیکن اس وقت دیر ہوچکی تھی اور قوم پورے نظام شاہی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اسلامی انقلاب کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ لوگوں کا قیام مسلح نہیں تھا؛ لوگ آمریت کے خلاف جدوجہد میں جیل گئے، قتل ہوئے، ٹارچر سیلوں میں گئے، لیکن انہوں نے اسلحہ (بڑے پیمانے پر) نہیں اٹھایا۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کیا اور کامیابی تک جدوجہدجاری رکھا۔

مخالفین و ناقدین کی بات سن کر اپنا راستہ متعین کریں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اناسی کے انقلاب کے نعروں اور اہداف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایرانی قوم نے انقلاب کے دوران آزادی اور استقلال کا نعرہ بلند کیا۔ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ ہم کسی بھی طاقت کے غلام نہیں بننا چاہتے ہیں اور خود ہی اپنی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کا دوسرا نعرہ آزادی تھا؛ لوگ اظہارِ رائے اورقلم کی آزادی چاہتے تھے تاکہ تنقید کرنا آزاد ہو۔
انہوں نے مزید کہا: قوم نے عدل و انصاف کے لیے انقلاب کیا تاکہ تمام مذاہب، مسالک اور قومیتوں پر توجہ دی جاسکے۔ ایرانی قوم اپنے ملک میں عزت چاہتی تھی؛ ان ہی خوبصورت نعروں سے جو قوم کے لائق بھی ہیں، عوام انقلابی کاروان میں شامل ہوتے گئے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اب ہم اسلامی انقلاب کی 42ویں سالگرہ منارہے ہیں، ایسے میں انقلاب کی کامیابیوں اور شکستوں پر گفتگو کرنی چاہیے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ انقلاب کے کونسے مقاصد حاصل ہوچکے ہیں اور کونسے باقی ہیں۔ خدمات کو بھی دیکھ لیں اور پیچھے رہنے والے کاموں پر بھی نظر رکھیں۔
نامور سنی رہ نما نے مزید کہا: افسوس کی بات ہے کہ آج کل بہت سارے لوگ تحسین و تمجید سے خوش ہوتے ہیں اور تنقید سے ناراض۔ یہ اچھی صفت نہیں ہے؛ انسان کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ تعریفوں پر زیادہ توجہ نہ دے اور تنقید پر کان دھرے، کامیابیوں کو اللہ کا فضل و کرم قرار دے اور کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کرے۔ موافقین و مخالفین کی باتوں پر توجہ دیں؛ عام طور پر ہمارے دوست ہماری کمزوریوں کو بتانے سے گریز کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے واضح انداز میں کہا: خیرخواہی کے جذبے کے تحت عرض کرتاہوں کہ حکام اپنی قوت برداشت بڑھائیں اور مخالفین کی بات سنیں۔ یہ خوشی کی بات نہیں کہ مخالفین اجنبیوں کو خط لکھیں اور اپنی شکایات کو وہاں پہنچائیں، خوشی کی بات ہوگی اگر یہ شکوے شکایات یہاں پیش ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: تشدد کی مذمت کرتے ہیں، لیکن جہاں تک قانون نے اجازت دی ہے تنقید کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، احتجاجی مظاہروں کو بھی برداشت کریں۔ اپنا راستہ ان ہی تنقیدوں اور احتجاجوں کی روشنی میں متعین کریں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ایران میں ہم ایک ہی خاندان کے ارکان کی مانند ہیں؛ ایران کا تعلق کسی خاص مذہب، مسلک یا گروہ سے نہیں ہے، یہ صرف مسجد جانے والے شیعوں یا غیرمسجد جانے والے شیعوں کا ملک نہیں، بلکہ یہ سب کا ملک ہے، چاہے وہ دیندار ہوں، نمازی و مذہبی ہوں یا نہ ہوں۔ سب کو دیکھنا چاہیے اور سب کے حقوق پر توجہ دینی چاہیے۔

انسانی حقوق کے نمائندوں کے لیے جیلوں کے دروازے کھولیں
مولانا عبدالحمید نے قیدیوں کے حقوق کی خیال داری پر زور دیتے ہوئے کہا: قیدی بھی انسان ہیں اور ان کے کچھ حقوق ہیں تاکہ بات کرسکیں اور خود سے دفاع کریں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو شکایت ہے؛ ہم کیوں جیلوں کے دروازے ان کے سامنے نہ کھولیں اور جیلوں کے حالات سے انہیں کیوں واقف نہیں رکھتے ہیں؟
سینئر مذہبی و سماجی رہ نما نے اپوزیشن رہ نما میرحسین موسوی اور مہدی کروبی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: میری درخواست ہے کہ جناب موسوی اور کروبی کو رہا کیا جائے۔ انہوں نے ملک اور انقلاب کے لیے محنت کی، کوئی بھی شخص خطا سے مصون نہیں، لیکن عفو اور گذشت سے کام لینا چاہیے؛ ملک و حکومت کے مفاد میں یہی چیز ہے۔
انہوں نے مزید کہا: کوئی بھی اعترافی بیان جو جبر اور تعزیر کے بل بوتے پر لیا جائے، اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے قاضی جبری اعترافات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتاہے۔ واضح نہیں بہت سارے لوگوں کو کن حالات میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور کیسے ان سے اعترافی بیان لیا گیاہے؛ کیا انہیں منصفانہ طریقے سے ٹرائل کیا گیا ہے یا نہیں!
مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر آزادی فراہم کرنے کے سلسلے میں بندے کے پاس اختیارات ہوتے، تو ایسا عمل کرتا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں سے آزادی کے حوالے سے مقابلہ کرتے۔ اگر مجھے اختیارات مل جائیں، میں یہ اجازت نہیں دیتا کہ میرے مخالفین ایک دن بھی جیل میں رہیں۔ بلکہ سب کو رہا کرکے کہتا کہ میری تنقید کریں۔

عوام کو آزادی کے ساتھ بات کرنے دیں، بیس سال ہوچکے ہیں براہ راست سپریم لیڈر سے بات چیت نہیں ہوئی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اظہارِ رائے کی آزادی کو جمہوریت کے اہم تقاضوں میں یاد کرتے ہوئے کہا: ایرانی قوم نے ’اسلامی جمہوریہ‘ کو ووٹ دیا ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوام بات کرنے اور تنقید کرنے میں آزاد ہیں، وہ حکام کے محسن ہیں جو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ اسلامیت کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہمارے قوانین اسلامی ہوں گے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس حوالے سے کس قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے؟
انہوں نے مزید کہا: میرے خیال میں حکومت کے اعلی ادارے (عدلیہ، پارلیمنٹ اور کابینہ) آزاد سٹیج رکھیں اور عوام کو بولنے دیں۔ سپریم لیڈر بھی اجازت دیں عوام ان سے ملیں۔ سپریم لیڈر میرے دوست ہیں، لیکن بے شک وہ ہم سب کے بڑے ہیں اور ملک کے سربراہ، لیکن بیس سال ہوچکے ہیں کہ براہ راست میری اور ان کی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: صدر مملکت اور وزیروں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، لیکن سب سے اہم اختیارات سپریم لیڈر کے ہاتھوں میں ہیں۔ مختلف حلقوں کو ان سے بات کرنے اور ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے۔ جو لوگ حقائق کو بتاتے ہیں، انہیں بھی ملنے دیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: میرے خیال میں ہمارے مدرسے (دارالعلوم زاہدان) کے ذمہ داران تنقید پر توجہ دیں۔ بندہ بھی سب کے لیے یہ حق مانتاہے کہ میری تنقید کریں، ان تنقیدوں میں اگر کوئی انصاف کے دائرے سے خارج بھی ہوجائے، تب بھی میں خوش ہوں اور توجہ سے سنتاہوں۔ ہم سب کو اپنی برداشت بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ٓانہوں نے مزید کہا: سب کو اظہارِ رائے کی آزادی دیں؛ شیعہ و سنی کے علمائے کرام، دانشوروں اور مختلف طبقوں کو بات کرنے دیں۔ تنقید مفید ہونی چاہیے جس میں کردارکشی اور توہین شامل نہ ہو۔ اگر کوئی خدمت ہوچکی ہے، اس کا تذکرہ کریں، اگر کمزوری ہے، تو اسے بھی بیان کریں۔
اصلاح پسندوں پر تنقید کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اصلاح پسند جماعتوں کا مقصد اصلاح لانا تھا، لیکن میرے خیال میں وہ اس حوالے سے ناکام ہوئیں۔ اصلاح پسند بھی دوسروں کو اجازت دیں تاکہ تنقید کرکے ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کریں۔

امتیازی پالیسیوں کے خاتمے کا پہلا قدم؛ اہل سنت کو بھی صدارت مملکت کے لیے نامزد ہونے دیں
ایرانی آئین کی ایک شق جو سنی برادری کو صدر مملکت کے عہدے سے محروم رکھتی ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ’ایران سب ایرانیوں کے لیے‘ کا نعرہ بہت خوبصورت ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس پر جامہ عمل نہ پہنایا گیا۔ آئین میں آیاہے کہ سنی شہری صدر مملکت نہیں ہوسکتے؛ یہ امتیازی پالیسیوں کا پہلا قدم تھا جسے تبدیل کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ہرچند ہمارے ملک کے آئین دنیا کے بہترین آئینوں میں شامل ہے، لیکن اس کی ترتیب سے بیالیس سال گزرچکے ہیں اور تجربہ سے ثابت ہوا ہے اس کی بعض شقیں غیرمفید رہی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے۔ ہمیں تکامل کی طرف گامزن ہونا چاہیے۔
شیخ الاسلام نے کہا: امید کرتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں کم از کم ایک نامزد کا تعلق سنی برادری سے ہو۔ سنی برادری نے سابقہ بارہ الیکشنز میں شیعہ نامزدوں کو ووٹ دیا ہے، اس بار شیعہ وسنی اکٹھے ہوکر کسی سنی نامزد کو ووٹ دیں۔ اس میں کیا مسئلہ ہے کہ ایک اصیل سنی ایرانی جو اتحاد بین المسالک کے حامی ہو، صدر مملکت منتخب ہوجائے؟!
انہوں نے مزید کہا: اتنے سالوں میں ہم (اہل سنت) آپ کی خدمت میں رہے، اب اجازت دیں کہ چار سال تک ہم تمہاری خدمت کریں؛ ہمیں اختیارات دیں اور پھر کارنامے دیکھیں۔ مغرب میں تمام تر خرابیوں کے باجود ایک بہت بڑی خوبی ہے؛ امریکا میں ایک افریقی سیاہ فام صدر یا نائب صدر بن سکتاہے۔ کیا شیعہ وسنی بھائی بھائی نہیں ہیں؟ پھر ایران میں سنی کیوں صدر نہیں بن سکتاہے؟! یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی بھی شخص کے پاس نہیں ہے۔

کردستان میں گرفتاریاں،بلوچستان میں پھانسی کی سزائیں پریشان کن ہیں
اپنے خطاب کے ایک حصے میں مولانا عبدالحمید نے صوبہ کردستان میں سیاسی و سماجی کارکنوں کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: حالیہ ایام میں کردستان میں کچھ گرفتاریاں سامنے آئی ہیں اور چونکہ ان گرفتاریوں کی وجوہات معلوم نہیں، ہم پریشان ہیں۔ حکام سے مطالبہ ہے جلداز جلد ان کے بارے فیصلہ کریں۔ اسی طرح بہت سارے لوگ صوبہ سیستان بلوچستان میں پھانسی کے منتظر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جس نے قتل کا ارتکاب کیا ہے، اسے قصاص کرنا چاہیے؛ یہ شریعت اسلام کا قانون ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’من قتل قتلناہ‘؛ جو قتل کا ارتکاب کرتاہے، ہم اسے قتل کردیتے ہیں۔ لیکن اگر مقتول کے ورثہ مصالحت کریں اور معاف کریں، یہ الگ بات ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: شریعت کی رو سے اگر کسی نے قتل کا ارتکاب نہیں کیا ہے، یا وہ کسی جہادی تنظیم میں شامل ہوچکاہے، لیکن گرفتاری سے قبل یا دوران قید نادم ہوچکاہے، اسے پھانسی کی سزا نہیں دینی چاہیے۔ ایسے لوگوں کو قید میں رکھ کر ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے مخالفین سے وہی رویہ اپنانا چاہیے جو نبی کریم ﷺ اور سیدنا علی ؓ نے اپنے مخالفین کے ساتھ کیا۔
انہوں نے کہا: ملک میں جاری بہت سارے فوجداری قوانین، خاص طورپر منشیات کے متعلق قوانین نظرثانی اور اصلاح کے طالب ہیں۔ میرے خیال میں چیف جسٹس آیت اللہ رئیسی جو ایک تجربہ کار اور باوقار شخصیت ہیں،کم از کم فوجداری اور عدالتی قوانین کے بارے میں شیعہ و سنی علمائے کرام کا ایک علمی جلسہ منعقد کرائیں تاکہ وہ اس بارے میں گفتگو کریں۔

افغان عوام اسلامی قوانین کے نفاذ سے نہ ڈریں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں افغان مصالحتی مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمیں بہت خوشی ہے کہ افغانستان سے صلح اور امن اور قابض غیرملکی افواج کے انخلا کی بو آرہی ہے اور افغان قوم کو صلح کی نوید سنائی دے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ تحریک طالبان اور افغان حکومت مذاکرات کی میز پر اکٹھی ہوچکی ہیں، لیکن دونوں اطراف کو چاہیے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ایک اہم نکتہ جو افغان قوم کو مدنظر رکھنا چاہیے، وہ یہ ہے افغانستان کے معزز شہری اسلامی قوانین کے نفاذ سے نہ ڈریں۔ اگر افغانستان میں محمدرسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی حکومت نافذ ہوجائے، یہ ملک ظاہری و روحانی اور علمی و مادی لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا: یہ ہماری خواہش ہے کہ دنیاوالے کم از کم ایک جگہ دیکھیں حقیقی آزادی اور انسانی حقوق کا خیال رکھاجاتاہے اور اسلام میں تمام مذاہب، مسالک اور لسانی گروہوں کے حقوق کی خیالداری ہوتی ہے اور اسلام میں اس کی برداشت پائی جاتی ہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: معزز افغان قوم نے بھوک اور مہاجرت کی سختیاں برداشت کی ہے اور ایک پرامن اور آباد ملک میں رہنا ان کا حق ہے، اگر وہ چاہتے ہیں کہ امن اور خوشحال رہیں، اسلام کو تجربہ کریں اور اسلام سے نہ گھبرائیں۔
انہوں نے مزید کہا: اگر حقیقی اسلام نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق سوفیصد نافذ ہوجائے، سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ نبی کریمﷺ خود بھوک سے دوچار تھے اور دو دن مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھائے، لیکن لوگوں کی خوشحالی کے لیے محنت کرتے رہے۔ ہم ایسے حکام کے ہاتھ پاؤں پر بوسہ دیں گے جو غریبی کی حالت میں دنیا سے جائیں گے لیکن ان کے عوام خوشحال ہیں۔
اسلامی عدالت کی مثال بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: اسلامی عدالت وہی ہے کہ قاضی شریح جو حضرت علیؓ کے متعین کردہ قاضی ہے، لیکن ایک مقدمہ میں حضرت علیؓ کے خلاف اور ایک یہودی کے حق میں فیصلہ سناتے ہیں۔ جب حضرت عمرؓ نے منبر پر پوچھا اگر میں نبی کریمﷺ کی سیرت سے ہٹ جاؤں تم کیا کرتے ہو؟ ایک بدو اٹھا اور اس نے تلوار نکال کر کہا اس تلوار سے تمہیں سیدھے کرتاہوں۔ یہ ہے اسلامی انصاف اور آزادی؛ کیا دنیا اس کی نظیر پیش کرسکتی ہے؟ کوئی بھی افغان رہ نما ایسی انصاف پسندی اور آزادی قائم کرے، ہم اس کے ہاتھوں کو چوم لیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں