سن مسیحی کا ایک سال اور ختم ہوگیا

سن مسیحی کا ایک سال اور ختم ہوگیا

سن مسیحی کا ایک سال اور ختم ہوگیا، بچہ جوانی کی جانب اور جوان بڑھاپے کی جانب، ایک سال اور کھسک آئے، بچے، جوان، بوڑھے سب سے موت اور قبر ایک سال اور قریب ہوگئی، اور زندے اور مُردے، سب قیامت اور روز حساب سے بقدر ایک سال کے اور نزدیک ہوگئے، فرصت عمر جو عطا ہوئی تھی اس کی مقدار میں ایک سال اور گھٹ گیا، ایک سال کی نیکیوں کا موقع ہاتھ سے ضائع ہوگیا، ایک سال کی بداعمالیوں کی سیاہی نامہ اعمال میں اور بڑھ گئی، کتنے ایسے ہوں گے جو اپنی اپنی سالگرہ کا جشن منانے کی تیاری کررہے ہوں گے، جو سال نو کے طلوع پر ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہوں گے۔
جو ”نوروز“ کی خوشیاں منا رہے ہوں گے! پر کتنے ایسے ہیں جنھیں اس وقت کی بیش بہا دولت کے ضائع جانے پر تاسف ہو رہا ہوگا، جو یہ محسوس کررہے ہوں گے کہ یہ دولت اب دوبارہ کسی طرح نہیں نصیب ہوسکتی اور جو اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کو یاد کرکے ان کی تلافی، آنسوؤں کے موتیوں سے کررہے ہوں گے!
”وقت گذر گیا“ ”وقت چلا گیا“ اس قسم کے فقرے جو آپ رات دن بولتے رہتے ہیں، کبھی آپ نے ان کے معنی پر غور کیا ہے، کبھی آپ نے یہ بھی سوچاہے کہ وقت کے گذر جانے سے مفہوم کیا ہوتا ہے، اور یہ وقت جو چلا جاتا ہے، سو آخر کہاں جاتا ہے؟ سرے سے ناپید تو ہو نہیں جاتا، اور نہ یہ آپ کبھی کہتے ہیں۔ آپ تو ہمیشہ صرف اس قدر کہتے ہیں کہ وقت گیا۔ ہرجانے والا آخر کہیں نہ کہیں ہی جاتا ہے، پھر یہ وقت کہاں چلا جاتا ہے؟ ایک مسلمان کے لئے اس کا جواب کچھ دشوار نہیں۔ اُسے شروع ہی سے یہ بتادیا گیا ہے کہ ہر شے خدا ہی کی طرف واپس جاتی رہتی ہے، پس وقت بھی وہیں جاتا ہے، اور ہر سال، ہر مہینہ، ہر ہفتہ، ہر روز، ہر گھنٹہ، ہر لمحہ غرض وقت کا ہر حصہ وہیں چلا جاتا ہے اور اسی ذخیرہ غیب میں جمع ہوتا چلا جاتا ہے۔ گویا فطرت کا وہ عظیم الشان خزانہ یا توشہ خانہ جس میں ہر شی جمع ہوجاتی ہے، وہیں ہر گذرا ہوا وقت بھی بطور ایک امانت کے جمع ہوتا چلا جارہا ہے۔
اب جس شے کو مذہب کی بولی میں قیامت اور روز محشر کہا جاتا ہے اس کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ گذرے ہوئے وقت کی واپسی اور بازگشت کا وقت ہوگا۔ ہر لمحہ اور ہر دقیقہ جو اسی دنیا میں گذر چکا ہے اور جو بطور امانت خزانہ غیب میں جمع ہوتا چلا جارہا ہے، اس وقت پھر از سرِ نو باہر لایا جائے گا اور ہر ”ماضی“ کا نقش ایک بار پھر ”حال“ کے آئینہ میں نمودار ہوجائے گا!
ظاہر ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں کسی نہ کسی وقت کے اندر کرتے ہیں، پس وقت کی مراجعت و بازگشت کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہمارے سارے اعمال اور کرتوت، ہماری نیکیاں اور بدیاں، ہمارے قول اور فعل، ہمارے حرکات اور سکنات، سب کچھ ہمارے سامنے از سرِ نو لاحاضر کئے جائیں گے اور یہی مراد ہے یوم بعث و روز محشر سے۔
اب ارشاد ہو، آپ اس وقت کا سامنا کرنے کو تیار ہیں؟ آج جن چالاکیوں سے آپ دوسروں کا مال اڑا رہے ہیں، اپنی جن ہوشیاریوں اور دانائیوں پر آج آپ خوش ہورہے ہیں، زندہ دل و رنگین مزاج احباب کی صحبتوں میں آج آپ جو جو حرکتیں کررہے ہیں، رات کی اندھیریوں میں آج آپ کو جن سیہ کاریوں کی مہلت مل رہی ہے، گھر کی خلوت میں آپ اپنے ظلم و غضبناکی کے جو نمونے پیش کررہے ہیں، باہر کی جلوت میں آج آپ اپنی جس ریاکاری کی نمائش فرمارہے ہیں، ان میں سے ایک ایک شی وقت کے رجسٹر میں درج ہورہی ہے، وقت کے کیمرے میں اس کی تصویر اترتی جارہی ہے، جس وقت یہ رجسٹر کھل کر رہے گا، جس وقت یہ مرقع نظر کے سامنے آکر رہے گا، سوچئے اور سمجھئے کہ اس وقت آپ کے دل پر کیا گذرے گی؟ سنبھلیئے کہ ابھی سنبھلنے کا موقع باقی ہے۔ جاگئے بہت سوچکے، روئیے کہ بہت ہنس چکے، حاصل کیجئے کہ بہت ضائع کرچکے۔ پچھلا سال اگر بالکل غفلتوں اور نادانیوں کی نذر ہوچکا ہے تو اس سے سبق لیجئے اور دل میں پختہ عہد کیجئے کہ اگر زندگی ہے تو زندگی کا یہ سال بے کار نہ جانے پائے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں