مولانا عبدالحمید کا سپریم لیڈر کے نام خط: سنی برادری مایوس ہورہی ہے

مولانا عبدالحمید کا سپریم لیڈر کے نام خط: سنی برادری مایوس ہورہی ہے

زاہدان (سنی آن لائن) ایران کے اسلامی انقلاب سے چار سے زائد عشرے گزرچکے ہیں اور اس ملک کی سنی برادری کے مسائل ابھی تک حل کے انتظار میں ہیں۔ ایران کے سب سے زیادہ بااثر سنی رہ نما مولانا عبدالحمید نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک خط میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اہل سنت کے مسائل سے انہیں اطلاع دی۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ میں ان کے تازہ ترین خط کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ متعدد مسائل کی وجہ سے جو اب تک حل نہیں ہوچکے ہیں، سنی برادری اپنے مسائل کے حل کے بارے میں مایوس ہورہی ہے، ہرچند انہیں اپنے وطن سے پیار ہے۔
انہوں نے لکھاہے: ایران کی سنی برادری نے سخت ترین حالات میں اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر اس دفاع کیا ہے اور ملک میں قومی امن اور اتحاد کو محفوظ رکھنے کی خاطر ان کا کردار کلیدی رہاہے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے اپنے خط میں مزید کہا ہے: اسلامی انقلاب سے بیالیس سال گزرنے کے بعد بھی ایران کے سنی متعدد مشکلات سے دوچار ہیں اور انہیں شہری حقوق کے بارے میں مسائل کا سامنا ہے، یہاں تک کہ وہ خودکو ایران کے دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری محسوس کرتے ہیں۔
ایرانی بلوچستان کے صدر مقام زاہدان میں رہنے والے عالم دین نے کہا ہے: ایران کے سنی شہری کلیدی عہدوں سے محروم ہیں؛ چنانچہ اب تک کوئی سنی شہری بطور وزیر، صوبائی گورنر، نائب صدر، نمائندہ سپریم لیڈر یا ان کے مشیر کے طورپر تعینات نہیں ہوچکاہے۔ بعض وزارتخانوں، مسلح اداروں اور سنی اکثریت علاقوں میں ان کی انتہائی محدود رسائی دراصل ان کے شہری حقوق کے مسائل کی مثالیں ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے 2017ء میں سپریم لیڈر کے خط اور حکم نامہ کی جانب اشارہ کیا جو ان کے خط کے جواب میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے اس بارے لکھا ہے کہ سپریم لیڈر کے واضح حکم کو مختلف اداروں نے نظرانداز کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس خط کو سنجیدہ نہیں لیا گیا یا وہ باقاعدہ حکم نامہ کی صورت میں مختلف حکام کو نہیں بھیجا گیا۔
سنی برادری کے مذہبی مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اہل سنت ایران کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما نے کہا: حالیہ برسوں میں ایک نیا سرکاری محکمہ وجود میں آیاہے جس کا نام ہے ’سنی دینی مدارس کی منصوبہ بندی کونسل‘۔ اس کا مقصد ہے اہل سنت کی تمام مذہبی سرگرمیوں، مساجد اور مدارس کو مختلف صوبوں اور حتی کہ بستیوں میں اپنی نگرانی میں لاکر چلائے۔ یہ محکمہ بعض سکیورٹی اور عدالتی اداروں کے دباؤ کا سہارا لے کر اہل سنت کے مذہبی مراکز پر دباؤ ڈال رہاہے۔ حالانکہ آئین کی شق نمبر بارہ کے مطابق تمام اسلامی مسالک کو ایران میں مذہبی آزادی حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ایران سمیت مختلف ملکوں میں مذہبی امور کی بھاگ دوڑمحکمہ اوقاف کے پاس ہے۔ ایران کی شیعہ برادری کے مذہبی امور کے ذمہ دار ادارہ بھی محکمہ اوقاف ہے۔ ہمارے مذہبی امور کی نگرانی بھی محکمہ اوقاف کے پاس ہونی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خط میں کہاہے: گزشتہ چار صدی کے جدوجہد اور مسائل کے حل کے لیے محنت سے پتہ چلتاہے ایران کی سنی برادری کے بارے میں مخصوص جگہوں پر فیصلہ سازی ہوتی ہے جو اکثر غیرقانونی اور ذاتی صوابدیدی پر مشتمل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا ہے: متعدد پریشانیوں اور مسائل کی وجہ سے بتدریج سنی برادری کا حوصلہ پست اور ملک سے پیار کے باوجود اپنے مستقبل کے بارے میں ان میں مایوسی پھیل رہی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خط کے آخر میں زور دیاہے جو کچھ انہوں نے لکھا ہے سب جذبہ خیرخواہی کے تحت ہیں اور سپریم لیڈر سے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا مطالبہ پیش کرتے ہوئے مذکورہ مسائل کے حل پر زور دیا گیا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں