«وعن عبدِاللَّه بنِ مَسْعُودٍ قَالَ: نَامَ رسولُ اللَّه ﷺ عَلَى حَصيرٍ، فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ في جَنْبِهِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ الله، لوِ اتَّخَذْنَا لكَ وِطَاءً، فقال: مَا لي وَللدُّنْيَا؟ مَا أَنَا في الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا» (سنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ما جاء فی اخذ المال: 2299)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک چٹائی پر سوئے، جب اٹھے تو پہلوئے مبارک پر چٹائی کے نشانات تھے، ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کاش ہم آپ کے لئے کوئی نرم بستر تیار کرلیتے (جس سے بدن مبارک کو راحت پہنچتی) آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ میری مثال تو دنیا میں ایسی ہے کہ کوئی سوار چلتے چلتے ذرا سی دیر کے لئے کسی درخت کے سایہ میں ٹھہر گیا، پھر توڑی دیر بعد چل پڑا اور اس سائے کو چھوڑ گیا۔
تشریح:
یہ حدیث چار مسائل پر مشتمل ہے:
اول: اس سے آنحضرت ﷺ کے زہد اور دنیا سے بے رغبتی کا نقشہ سامنے آتا ہے کہ آپ کو اتنا بھی اہتمام نہیں کہ آرام و راحت کے لئے کوئی نرم و نازک بستر ہی بنا لیا جائے، دوسرے تکلفات اور راحت و آسائش کے دوسرے اسباب کا تو آپ ﷺ کو کیا اہتمام ہوتا۔
دوم: یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کا زہد و فقر کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس کو از خود اختیار فرما رکھا تھا، ورنہ آپ کے جاں نثار صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) آپ پر سب کچھ نثار کرنے کو حاضر تھے، لیکن آپ ﷺ کی ہمت بلند دنیوی آسائش اور فان لذات سے بہت بالاتر تھی، اس لئے آپ ﷺ نے ان کو قصداً قبول نہیں فرمایا، اسی لئے عارفین فرماتے ہیں:
ہمت بلند دار کہ پیش خدا و خلق
باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو
سوم: اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نظر میں دنیا کی کیا حیثیت تھی؟ آپ ﷺ نے بتایا کہ دنیا کی مثال ایسی ہے کہ مسافر چلتے چلتے چند لمحے سستانے کے لئے کسی درخت کے سائے میں آبیٹھا، اور ذرا سا سستا کر وہاں سے چل پڑا، اور اس سائے کو خیرباد کہہ دیا، کوئی شخص اس سائے کی راحت و لذت میں ایسا منہمک ہوجائے کہ اسی کو اپنا گھر بنا بیٹھے، تو ایسا شخص عقل و خرد سے بیگانہ ہے، ٹھیک اسی طرح یہ دنیا کسی کا گھر نہیں، بلکہ مسافران آخرت کے سفر کی درمیانی منزل ہے، جو شخص اس سرائے فانی میں دل لگا کر اپنی اصل منزل کو بھول جائے اور یہ بات اس کے ذہن سے نکل جائے کہ اسے یہاں سے کوچ کرنا ہے وہ فرزانہ نہیں، دیوانہ ہے، یہاں سے معلوم ہوگا کہ جن لوگوں کی ساری قوتیں دنیا کی تعمیر و ترقی میں کھپ رہی ہیں وہ کس قدر جہل مرکب میں مبتلا ہیں، اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوں گے اس وقت ان کی حالت کس قدر قابل رحم ہوگی کہ ان مسکینوں نے ساری عمر جس چیز پر محنت کی تھی وہ ناپائیدار نکلی، اور جو چیز ہمیشہ رہنے والی تھی اس کے لئے انہوں نے محنت نہ کی:
نرقع دنیانا بتمزیق دیننا
فلا دیننا یبقی و لا ما نرقع
ترجمہ: ”ہم اپنے دین کو پھاڑ پھاڑ کر اپنی دنیا کو پیوند لگارہے ہیں، پس نہ تو ہمارا دین باقی رہے گا، اور نہ دنیا جس کی پیوندکاری کی تھی“۔
چہارم: دنیا سے بے رغبتی کا سبب دو چیزیں ہیں، ایک اس کی ذلت و قلت، اور دوسری اس کی ناپائیداری، کیونکہ اول تو کوئی کتنا ہی سر پھوڑے دنیا کی تمام آسائشیں مہیا کرنے سے قاصر رہے گا، یہ ممکن ہی نہیں کہ یہاں کسی کی ساری خواہشیں اور چاہتیں پوری ہوجائیں، اس لئے بزرگوں کی نصیحت ہے:
کار دنیا کسے تمام نہ کرد
ہرچہ گیرید مختصر گیرید
اور اگر بالفرض کسی کو ساری دنیا بھی مل جائے تو اس کی قدر و قیمت آخرت کے مقابلے میں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، یہ تو دنیا کی ذلت و قلت کا حال ہے، اور پھر اپنی تمام تر حقارت و ذلت کے باوجود وہ فانی، زوال پذیر اور ناپائیدار ہے، اول تو دنیا ہی آدمی کو چھوڑ دیتی ہے، ورنہ آدمی اس کو چھوڑنے پر تو بہر حال مجبور ہے، دنیا کا کوڑا کر کٹ جتنا زیادہ جمع کیا ہوگا، مرتے وقت اتنی ہی حسرت زیادہ ہوگی:
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
اس حدیث پاک میں دنیا کے فنا و زوال کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے کہ دنیا اپنے فنا و زوال کی وجہ سے اس لائق نہیں کہ کوئی عاقل یہاں دل لگائے، حق تعالی شانہ اپنی رحمت سے اس روسیاہ کو بھی چشم بصیرت نصیب فرمائے۔
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ
انتخاب از: مولانا محمدمعین الدین ندوی قاسمی
آپ کی رائے