اللہ تعالی نے انسان کو جو بہت سی نعمتیں اس کائنات میں دی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی نعمت وقت ہے، انسان سمجھتا ہے کہ اس کی عمر بڑھ رہی ہے، اس کے اوقات بڑھ رہے ہیں؛ لیکن درحقیقت عمر گھٹتی جاتی ہے اور ہر لمحہ وقت کی متاع گراں مایہ اس کے ہاتھوں سے نکلتی جاتی ہے:
ہو رہی ہے عمر مشکل برف کم
چپکے چپکے، لمحہ لمحہ، دم بہ دم
وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خود اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں کتنے ہی مقامات پر وقت کی قسم کھائی ہے، کبھی رات اور صبح کی قسم کھائی گئی، (اللیل، مدثر، تکویر) کبھی رات کے ساتھ شفق کی قسم کھائی گئی، (انشقاق) کبھی فجر اور اس کے ساتھ دس راتوں کی (الفجر) کبھی دن کی روشنی اور رات کے چھا جانے کی (الضحی) اور کبھی خود زمانہ کی (العصر) دنوں کی آمد و رفت اور سورج و چاند کے طلوع و غروب سے اوقات کا علم ہوتا ہے، قرآن مجید نے جابجا اللہ کی نعمت کی حیثیت سے ان کا ذکر فرمایا ہے، اللہ تعالی قیامت میں انسان سے اس کی عمر کے بارے میں بھی سوال فرمائیں گے کہ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی، جس میں نصیحت حاصل کرنے والے لوگ نصیحت حاصل کرسکیں (الفاطر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں گذاری اور اپنی جوانی کو کس مقصد میں صرف کیا؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں، جس کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکہ میں مبتلا ہیں، صحت اور فراغتِ وقت۔
سلف صالحین جنھوں نے اعلی درجہ اور بلند قیمت علمی کام کئے ہیں، اپنے وقت کے ایک ایک لمحہ کو وصول کرتے تھے اور ایم منٹ کا ضائع ہونا بھی ان کو گوارا نہیں تھا، وہ آخر دم تک اپنے وقت کو مشغول رکھتے تھے، امام ابویوسف اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی القضاۃ ہیں، قاضی بن جراح سے نقل کی اہے کہ وہ مرض وفات میں امام صاحب کی عیادت کے لیے پہنچے، آپ پر بے ہوشی طاری تھی، ابراہیم بیٹھے تھے، کچھ دیر میں ہوش آیا، امام صاحب نے پوچھا کہ حج میں جمرات کی رمی پیدل کرنا افضل ہے یا سواری پر؟ ابراہیم نے استاذ سے عرض کیا: اس حال میں بھی آپ فکر و تحقیق کو نہیں چھوڑتے، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، ابراہیم نے کہا: سوار ہو کر رمی کرنا افضل ہے، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے کہا: یہ غلط ہے، ابراہیم نے کہا پھر پیدل رمی کرنا افضل ہوگا، فرمایا: یہ بھی غلط ہے، ابراہیم نے عرض کیا: جو رائے صحیح ہو، اسے آپ ہی ارشاد فرمائیں، فرمایا: جس رمی کے بعد کوئی اور رمی ہو، اس کو پیدل کرنا افضل ہے، اور جس کے بعد کوئی اور رمی نہ ہو، اسے سوار ہوکر۔ ابراہیم وہاں سے اٹھے اور امام صاحب کے گھر کے دروازہ ہی پر پہنچے تھے اور اہل خانہ کے رونے کی آواز آئی، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ امام ابویوسف کا انتقال ہوگیا ہے، یہی امام ابویوسف ہیں، جن کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے سترہ سال تک اپنے استاذ امام ابوحنیفہ کی مجلس میں اس طرح شرکت کی کہ کبھی فجر کی نماز فوت نہیں ہوئی، یہاں تک کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن بھی؛ بلکہ صاحبزادے کا انتقال ہوگیا تو تجہیز و تکفین کا انتظام اپنے اعزہ اور پڑوسیوں کو حوالہ کرکے درس میں شریک رہے اور درس سے محرومی کو گوارا نہیں کیا۔ (مناقب مکی)
اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اہل علم نے اتنا عظیم تصنیفی اور تالیفی کام انجام دیا ہے کہ سن کر اور پڑھ کر حیرت ہوتی ہے اور آج ان کتابوں کو ایک شخص کا پڑھ لینا بھی دشوار ہے، امام ابن جریر طبری بہت ہی بلند پایہ مفسر، محدث اور فقیہ ہیں، انھوں نے اپنی عظیم الشان تفسیر ۳ ہزار اوراق میں صرف سات سال کے عرصہ میں مکمل کی، پھر ایک تفصیلی تاریخ لکھنی شروع کی، جس سے 303 ھ میں فارغ ہوئے، یہ دونوں کتابیں تین تین ہزار گو یا چھے ہزار صفحات پر مشتمل ہیں، طبری کی یہ تفسیر ۱۱ ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ طبری کی تصنیفات کا حساب لگایا جائے تو یومیہ 82 صفحات کا اوسط ہوتا ہے۔ حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ انھوں نے جو روشنائی خریدی، اس کا حساب کیا گیا تو وہ سات سو درہم کی تھی، ابوریحان بیرونی کی وفات کے وقت اس زمانہ کے مشہور فقیہ ابوالحسن ولوالجی گئے، بیرونی نزع کی حالت میں تھے اور سینے میں گھٹن محسوس کررہے تھے، اس وقت علامہ ولوالجی سے ”جدات فاسدہ“ (نانی) کے حق میراث کا مسئلہ پوچھا، ولوالجی کو رحم آیا اور کہنے لگے: اس وقت بھی آپ کو یہ فکر پڑی ہے؟ بیرونی نے کہا: دنیا سے اس مسئلے سے واقف ہوکر جانا بہتر ہے یا ناواقف ہوکر؟ ولوالجی نے مسئلہ کی وضاحت کردی اور واپس ہوئے، کچھ ہی دور آئے تھے کہ رونے دھونے کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ علامہ بیرونی کا انتقال ہوگیا ہے۔
وقت کی حفاظت کرنے والے بزرگوں میں علامہ ابن عقیل رحمہ اللہ بھی ہیں، جو بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی سب سے اہم کتاب ”الفنون“ ہے، جس کے بارے میں بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس کی آٹھ سو جلدیں تھیں، اس کا کچھ حصہ ڈاکٹر جارج مقدسی مستشرق نے دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ تاریخ اسلام کے بڑے مصنفین میں ہیں، وہ ان لوگوں کو بہت ناپسند کرتے تھے، جو چاہتے کہ ان کے پاس ملاقاتیوں اور ہم نشینوں کی بھیڑ لگی رہے، خود بھی بے مقصد آنے والے سے بہت نالاں رہتے اور مجبوراً جن لوگوں سے ملاقات کرنی ہوتی، ان سے ملاقات کے اوقات کو اس طرح استعمال فرماتے کہ اس وقت حسبِ ضرورت کاغذ کاٹتے جاتے، قلم تراش لیتے اور لکھے ہوئے اوراق باندھ لیتے، اس کا نتیجہ تھا کہ بقول حافظ ابن رجب شاید ہی کوئی فن ہو، جس میں ابن جوزی رحمہ اللہ کی کوئی کتاب نہ ہو، ابن جوزی کی تصنیفات پانچ سو سے اوپر ہیں اور ان میں سے بعض بیس جلدوں اور بعض دس جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ابن جوزی رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے جن قلموں سے حدیثیں تحریر کی تھیں، ان کے ڈھیر سارے تراشے جمع ہوگئے تھے، انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرے غسل کا پانی اسی سے گرم کیا جائے؛ چنانچہ پانی گرم کرنے کے بعد بھی قلم کے تراشے بچ رہے۔
مشہور مفسر اور صاحب نظر امام رازی رحمہ اللہ کھانے کے وقت پر بھی افسوس کا اظہار کرتے کہ اس وقت علمی مشغلہ فوت ہو جاتا ہے، مشہور محدث علامہ منذری رحمہ اللہ کے صاحبزادے رشیدالدین (م: 643) کا انتقال ہوگیا، جو ان کو بہت محبوب تھے، تو اپنے جواں مرگ بیٹے کی نماز جنازہ خود پڑھائی، مدرسہ کے دروازہ تک جنازہ کے ساتھ خود چلے اور وہاں سے اللہ کے حوالہ کرکے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے۔ امام نووی رحمہ اللہ جیسے محدث اور صاحب علم سے کون ناواقف ہوگا، راستہ چلے ہوئے بھی علمی مذاکرہ میں اپنا وقت گذارتے، اس کا نتیجہ ہے کہ صرف 45سال کی عمر پائی لیکن ہزارہا ہزار صفحات ان کے قلم سے آج بھی محفوظ ہیں، جو اہل علم کے لیے حرز جاں ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا حال یہ تھا کہ سفر و حضر اور صحت و بیماری کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیتے، ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ نے ان کی تصنیفات کی تعداد پر جو رسالہ لکھا ہے، وہ خود 22 صفحات کا ہے۔ اخیر دور کے اہل علم میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا حال یہ تھا کہ روزانہ دس اسباق پڑھاتے، فتاویٰ بھی لکھتے، فریضہ قضاء بھی انجام دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک 114 اہم تصنیفات آپ کی یادگار ہیں۔ علامہ شہاب الدین آلوسی رحمہ اللہ کا حال یہ تھا کہ روزانہ چوبیس اسباق پڑھاتے، افتاء کا کام بھی کرتے اور اس کے ساتھ انھوں نے روح المعانی کے نام سے ایسی عظیم الشان اور مبسوط تفسیر لکھی ہے، جس کی پورے عالم اسلام نے داد دی ہے۔
ہندوستان کے علماء میں مولانا عبدالحی فرنگی محلی نے صرف انتالیس سال کی عمر پائی؛ لیکن ان کی تصانیف 110 سے بھی زیادہ ہیں اور ہر کتاب گویا اپنے موضوع پر حرف آخر ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ہزار کے قریب ہے۔ مولانا عبدالحی حسنی رحمہ اللہ نے الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند، مولانا حبیب الرحمن شیروانی نے ’علماء سلف‘ اور مشہور محقق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے اپنی نہایت اہم اور فاضلانہ تصنیف ”قیمۃ الزمن عند العلماء“ میں سلف صالحین کے ایسے کتنے ہی واقعات لکھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب وقت کی قدر جاننے اور اس کی قیمت پہچاننے کا نتیجہ ہے، جو لوگ وقت کو سستی اور بے قیمت شی سمجھتے ہیں اور اس کی قدردانی نہیں کرتے، وہ زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے، اسلام نے وقت کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے تمام عبادات کو وقت سے جوڑ رکھا ہے، نمازوں کے اوقات مقرر ہیں، روزہ متعین وقت سے شروع ہوتا ہے اور متعین وقت پر ختم ہوتا ہے، حج کے افعال بھی متعین ایام و اوقات انجام دیئے جاتے ہیں، قربانی بھی متعین دنوں میں ہوتی ہے، زکوۃ میں بھی مال پر ایک سال گزرنے کا وقت مقرر کیا گیا ہے اور شریعت میں کتنے ہی احکام ہیں، جو وقت سے مربوط ہیں؛ لیکن افسوس کہ یہ امت اپنے وقت کو جس قدر ضائع کرتی ہے اور اس کو جتنا بے قیمت سمجھتی ہے، شاید ہی اس کی کوئی مثال مل سکے، مسلمان نوجوانوں کی یار بازی، ہوٹل بازی اور بے مقصد سیر و تفریح ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے؛ بلکہ ضرب المثل بنتی جارہی ہے، شادی بیاہ و غیرہ کی تقریبات میں جس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ اوقات ضائع کئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ دینی جلسوں اور اجتماعات میں بھی اوقات کی پابندی کے معاملہ میں جو بے احتیاطی روا رکھی جاتی ہے، وہ کس قدر افسوس ناک ہے!
آئیے! نئے سال کا استقبال کرتے ہوئے ہم عزم مصمم کریں کہ وقت کی پوری قدردانی کریں گے، اور اپنے ایک ایک لمحہ کو ضائع ہونے سے بچائیں گے، اگر ہم سب اس کا عزم کریں اور اپنے آپ کو اس پر قائم رکھیں تو کون ہے جو اس امت مرحومہ کی سربلندی کو روک سکے؟؟
آپ کی رائے