قافلہ حق کے سالار

قافلہ حق کے سالار

17 اگست کو صبح ڈیٹرائیٹ کی مسجد بلال میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد واشنگٹن واپسی کے لیے ایئرپورٹ جانے کی تیاری کررہا تھا کہ مولانا قاری محمد الیاس نے اطلاع دی کہ پاکستان کی نامور علمی شخصیت اور قافلہ حق کے سالار علامہ علی شیر حیدری کو شہید کردیا گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون، وہ مسجد میں آنے سے پہلے انٹرنیٹ پر جنگ اخبار دیکھ کر آئے تھے جس کی اس دن پہلی خبر یہی تھی۔ واشنگٹن پہنچ کر انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی تفصیلات معلوم کیں اور بے حد صدمہ سے دوچار ہوا، علامہ حیدری تحفظ ناموس صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اہل السنۃ کے عقائد و حقوق کے دفاع کے محاذ کے ایک اہم راہ نما تھے جن کی پوری زندگی اسی مشن میں گزری اور بالآخر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموس کے تحفظ کی جنگ لڑتے ہوئے انہوں نے اپنے پیشرو راہ نماؤں کی طرح جام شہادت نوش کرلیا۔
اہل السنت و الجماعت کی اساس قرآن کریم کے بعد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل پر ہے، اسی لیے وہ اہل السنۃ و الجماعۃ کہلاتے ہیں اور دین کی تعبیر و تشریح میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اساسی مقام اور ان کے ناموس و حرمت کا تحفظ و دفاع ان کے فرائض کا حصہ ہے جس کے لیے مختلف حوالوں سے جد و جہد کا سلسلہ قرنِ اولی سے جاری ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سے جو شخص کسی کو اقتداء کرنا چاہتا ہے تو اس کی اقتدا کرے جو فوت ہوچکا ہے اس لیے کہ زندہ شخص کسی وقت بھی فتنہ میں مبتلا ہوسکتا ہے، اقتدا کے قابل اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہوسکتے ہیں؟ جب سب سے زیادہ نیک دل ہیں، گہرے علم والے ہیں اور سب سے کم تکلف والے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت کے لیے اور اپنے دین کی امامت کے لیے چنا ہے پس ان کے نقش قدم پر چلو اور ان کے طریقوں کی پیروی کرو کیونکہ وہی ہدایت اور صراط مستقیم پر ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا یہ ارشاد گرامی اہل سنت کے عقیدہ و عمل کی اساس ہے اور اسی کو وہ حق اور ہدایت کا معیار سمجھتے ہیں۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام طبقات مثلاً مہاجرین، انصار، اہل بیت ازواج مطہرات اور فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ یکساں محبت و عقیدت کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان حفظ مراتب اور درجات و فضیلت کا لحاظ رکھنا بھی اہل سنت کے جذبات ایمانی کا حصہ ہے، اس سلسلہ میں کسی بھی افراط و تفریط سے گریز کو وہ اپنے ایمان کا تقاضا سمجھتے ہیں اور بوقت ضرورت اس کے اظہار کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چونکہ قرآن و سنت کی صحیح تعبیر و تشریح کا معیار ہیں اس لیے ان کی حرمت و عدالت کو مجروح ہونے سے بچانا اور ان کی ثقاہت و صداقت کو شک و شبہ سے بالاتر سمجھنا بھی اس کا ناگزیر تقاضا ہے اور اسی وجہ سے ان کے ناموس اور عدالت کے دفاع و تحفظ کو اہل سنت نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں میں شمار کیا ہے، ایک روایت میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سرکاری طور پر بعض علماء کرام کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ مسجدوں میں بیٹھ کر لوگوں کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنایا کریں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مناقب اور فضائل ان کے سامنے بیان کیا کریں۔ اسی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین و تنقیص اور ان پر ایسی جرح تنقید کو جس سے ان کے ایمان و عدالت اور مقام صحابیت پر زد پڑتی ہو تو ہمیشہ گمراہی کی علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ امام ابوذرعہ رازی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ”جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن کریم کے نزول اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے گواہ ہیں اور گواہوں کو مجروح کرنے والے دراصل دین کا اعتماد ختم کرنا چاہتے ہیں۔
عقائد اہل سنت اور ناموس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تحفظ و دفاع کا یہی مشن ہے جس کے لیے ماضی میں برصغیر پاک و ہند میں حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، حضرت مرزا مظہرجان جاناں، حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہم اللہ تعالی اور دیگر اکابر مصروف کار رہے ہیں اور زمانہ قریب میں حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی، حضرت مولانا نورالحسن شاہ بخاری، حضرت مولانا دوست محمد قریشی، حضرت مولانا قاضی مظہر حسین اور سردار احمد خان پتافی رحمہم اللہ جیسے بزرگوں نے زندگیاں کھپا دی ہیں۔
ان بزرگوں کا طریق کار علمی، تحقیقی، اور دفاعی تھا جس میں تحریکی اور اقدامی عنصر کا اضافہ کرتے ہوئے گزشتہ تین عشروں کے دوران مولانا حق نواز شہید اور ان کے رفقاء کار سپاہ صحابہ کے نام سے سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مشن کو ملک گیر عوامی تحریک کی شکل دے دی۔
مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمہ اللہ اور ان کے قریبی رفقاء مثلا مولانا ضیاء الرحمن فاروقی شہید اور مولانا ایثار القاسمی شہید بنیادی طور پر جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی جماعتی زندگی کا ایک بڑا حصہ جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر نفاذ شریعت کی جد و جہد میں گزرا مگر جھنگ کے مخصوص ماحول نے مولانا حق نواز جھنگوی کی توجہ کو تحفظ ناموس صحابہ کی جد و جہد کی طرف مبذول کیا تو وہ اس کی طرف مسلسل بڑھتے چلے گئے اور اپنے ہم ذوق دوستوں کا ایک قافلہ تشکیل دے دیا جس نے سپاہ صحابہ کے نام پر پورے ملک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموس و حرمت پر مرمٹنے کے جذبے کی گونج پیدا کی اور قربانیوں اور شہادتوں کی لائن لگادی۔ اس عظیم مقصد کے لیے مولانا حق نواز جھنگوی، ان کے رفقاء اور ان کے کارکنوں کا جذبہ و خلوص اور ایثار و قربانی ہمیشہ شک و شبہ سے بالاتر رہے ہیں اور اپنے مشن کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ اور اس پر کٹ مرنے کے جذبہ کو ہم نے ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا ہے۔
مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ایثار القاسمی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا محمداعظم طارق کے بعد علامہ علی شیرحیدری اس قافلہ کے سالار تھے، وہ ایک کہنہ مشق استاد، نکتہ رس خطیب، صاحب علم مناظر، مدبر راہ نما اور پر جوش قائد تھے، انہوں نے اپنے پر جوش قافلہ کی جرأت مندانہ راہ نمائی کے ساتھ ساتھ اپنے موقف کی جس طرح علم و استدلال کے ساتھ عوامی اور علمی حلقوں میں ترجمانی کی ہے اسے ان کے امتیازی وصف کی حیثیت حاصل رہی ہے، وہ صرف عوامی اسٹیج کے آدمی نہیں تھے بلکہ کتاب و علم کے ساتھ بھی ان کا گہرا رشتہ تھا، اس لیے ان کی شہادت ہمارے لیے دوہرا صدمہ ہے کہ خطابت و تحریک کی دنیا میں علم و کتاب سے تعلق رکھنے والے لوگ بتدریج کم ہوتے جارہے ہیں، مجھے علامہ علی شیر حیدری کے ساتھ زیادہ ملاقاتوں اور تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ملا، ان کی خواہش رہی ہے کہ میں کبھی دو چار روز ان کے پاس جامعہ حیدریہ خیرپور میں رہوں، میرا بھی دل چاہتا تھا اور ایک آدھ بار پروگرام بنانے کا ارادہ بھی کیا مگر مقدر میں نہیں تھا اس لیے یہ خواہش ادھوری رہی، البتہ مختلف جلسوں میں ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک بار ہمارے پاس گوجرانوالہ بھی تشریف لائے مگر تفصیلی گفتگو نہ ہو سکی غالباً آخری ملاقات کڑیانوالہ ضلع گجرات کے ایک جلسہ میں ہوئی، وہ خالصتاً ناموس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تحفظ و دفاع کی جد و جہد کے آدمی تھے، انہوں نے اس کے لیے شب و روز محنت کی ہے، ہزاروں افراد کی ذہن سازی کی ہے اور ہزاروں کارکنوں کو اس کے لیے تیار کیا ہے، ان کے طریق کار سے اختلاف کی گنجائش تھی لیکن ان کی شبانہ روز محنت، اپنے مشن کے ساتھ ان کی والہانہ وابستگی اور ایثار و قربانی کا ایک طویل عرصہ ہم سب کے لیے قابل رشک ہے، اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور جملہ پسماندگان اور متوسلین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

اشاعت: علامہ علی شیر حیدری نوراللہ مرقدہ، حیات، خدمات، افکار و آثار۔
مرتب: محمدیونس قاسمی و عبدالجبار شیخ
طبع اول: فروری 2012ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں