حضرت تھانویؒ کی ”الانتباہات المفیدۃ“ کے قاعدہ (۲) کا خلاصہ

آسمان کے خارجی وجود کی دلیل

آسمان کے خارجی وجود کی دلیل

حضرت تھانویؒ کو اللہ تعالی نے مختلف علوم و فنون میں ملکہ راسخہ عطا فرمایا تھا، آپ بے شک حکیم الامت اور مجدد ملت تھے، آپ کی کتابیں تقریبا ہر موضوعات پر مل جاتی ہیں، اور علم فکر کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے اندر سمائے ہوئے ہوتی ہیں، آپ نے جس طرح، فقہ، تصوف، حدیث، تجوید، قرآن اور دیگر موضوعات پر کتابیں لکھیں ہیں اسی طرح علم کلام کے تعلق سے بھی آپ کی بعض کتابیں ہیں، انہیں میں سے ایک کتاب ”الانتباہات المفیدۃ فی حل الاشتباہات الجدیدہ“ ہے۔ یہ کتاب دراصل اردو زبان میں ہے لیکن اس وقت نایاب ہے مجھے کافی تلاش کے باوجود یہ کتاب نہیں مل سکی، البتہ اس کتاب کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں، عربی اور انگریزی میں اس کے ترجمے دستیاب ہیں، اس وقت میرے سامنے عربی ترجمہ ہے۔
حضرت تھانویؒ بنگال جارہے تھے، راستے میں اپنے چھوٹے بھائی اکبرعلی کے پاس علی گڈھ میں ٹھہر گئے، وہ اس وقت وہاں سب انسپکٹر تھے مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کو آپ کی تشریف آوری کا علم ہوگیا وہ ملاقات کے لیے آگئے، ادھر یونیورسٹی کے ذمہ داروں کو بھی معلوم ہوگیا انہوں نے طلبہ کے درمیان کچھ بیان کرنے کی خواہش کی حضرت نے جمعہ بعد عصر تک نہایت عمدہ تقریر فرمائی طلبہ اور استاذہ مستفید ہوئے حضرت تھانوی نے جدید ذہنوں میں اسلام کے خلاف پائے جانے والے اعتراضات کا علمی اور تحقیقی جائزہ لیا بعد میں اس کو کتابی شکل میں مرتب فرمادیا۔ اس کتاب میں فلسفہ اور جدید علم کلام کے سلسلے میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
حضرت تھانوی نے لکھا ہے کہ لوگوں کے خیال ہے کہ جدید علم کلام کی ضرورت ہے اس لیے کہ قدیم علم کلام اس وقت کے نئے اشکالات کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہیں حالاں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ قدیم علم کلام میں اتنا سب کچھ مزید کسی علم کلام کی ضرورت نہیں ہے ہاں بعض جزئیات کا قدیم علم کلام میں تذکرہ نہیں ہے اس لیے کہ اس وقت وہ مسائل پیش نہیں آئے تھے لیکن علم کلام کے اصولی مباحث کے ضمن میں اس کا حل کیا جاسکتا ہے تو اس ناحیہ سے جدید علم کلام کو مرتب کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس ناحیہ سے نہیں کہ قدیم علم کلام اس وقت کے لیے ناکافی ہے۔
اس کے بعد حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے کہ جدید اشکالات کی بھی مختلف صورتیں ہیں بعض تو وہ اشکالات ہیں جو زمانہ قدیم میں تھے لیکن لوگوں کی زبانوں پر رائج نہیں تھے اب رائج ہوئے تو وہ جدید ہوگئے، اسی طرح بعض قدیم اشکالات ہیں لیکن جدید اسلوب سے کئے گئے ہیں اس لیے جدید ہوگئے اسی طرح بعض نئی ایجادات کی وجہ سے بعض سوالات پیدا ہوئے ہیں وہ سوالات اپنے عنوان اور معنون دونوں اعتبار سے جدید ہی انہی وجوہات کی وجہ سے میں نے اپنی کتاب کا نام الانتباہات المفیدۃ فی حل الاشتباہات الجدیدۃ رکھا ہے۔ بہر حال کتاب دلچسپ ہے اور اس کے مطالعہ سے جدید علم کلام کی بہت سے مسائل حل ہوں گے یہاں پر کتاب کے ایک حصے قاعدہ نمبر ۲ کا خلاصہ کیا گیا ہے جس میں آسمان کے وجود خارجی کو عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ سے سمجھایا ہے اس ضمن میں امر ممکن کے موجود ہونے نہ ہونے کے اصولی قاعدے سے بھی بحث کی ہے۔

دوسرا قاعدہ: جب کوئی امر عقلاً ممکن ہو اور دلیل نقلی اس کے موجود ہونے پر قائم ہوجائے تو اس کے وجود کا قائل ہونا واجب ہوجاتا ہے جیسا کہ اگر موجود نہ ہونے پر دلیل نقلی قائم ہوجائے تو اس کا موجود نہ ہونے کا قائل ہونا واجب ہوجاتا ہے۔

واقعات کی تین حالتیں ہیں:
(الف) واجب: یہ ہے کہ عقل اس کے وقوع کے یقینی ہونے کا فیصلہ کرے اور اس کے عدم وقوع سے انکار کرے۔ اس کی مثال ایک دو کا آدھا ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ عقل اس کے وجوب کا فیصلہ کری ہے، اور ایک اور دو کی حقیقت کے جاننے کے بعد اس کے خلاف کا انکار کرتی ہے ہر وہ شخص جس کے پاس معمولی بھی عقل ہو وہ یہی کہے گا کہ ایک دو کا نصف ہے کوئی بھی صاحب عقل اس کا انکار نہیں کرے گا۔
(ب) ممتنع: یہ وہ ہے کہ عقل اس کے عدم وجوب کا فیصلہ کرے، اس کی مثال جیسے یہ کہا جائے کہ ایک دو کے برابر ہے، یہ ایک ایسا حکم ہے کہ عقل اس کے باطل ہونے کا فیصلہ کرتی ہے، اس کو محال کا بھی نام دیا جاتا ہے۔ یعنی کوئی صاحب عقل اس کو تسلیم نہیں کرے گا کہ ایک اور دو برابر ہے بلکہ کہے کہ یہ غلط ہے ایک اور دو برابر نہیں ہیں بلکہ ایک دو کا نصف ہے۔
(ج) ممکن: یہ وہ صورت ہے کہ عقل اس کے وجوب اور عدم وجوب کا فیصلہ نہ کرے، بلکہ دونوں امر کا احتما ہو اس وقت دو احتمال میں سے ایک کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک مستقل دلیل نقلی کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس کی مثال کسی کہنے والے کا یہ کہنا فلاں شہر کی مساحت فلاں شہر سے زیادہ ہے، تو مساحت کا زیادہ ہونا ایک ایسا فیصلہ ہے کہ عقل اس کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ نہیں کرسکتی ہے، جب تک کہ اس قول کی صحت کا یقین پیمائش کے ذریعہ یا اس شخص کے مطمئن کرنے کے ذریعہ جس نے خود سے پیمائش کی ہو نہ ہوجائے اس وقت تک دونوں امر کا احتمال رہے گا۔
پھر جب اس امر ممکن کے وقوع کا دلیل نقلی کے ذریعہ ثابت ہوجائے تو اس کا ماننا واجب ہوجاتا ہے اور اگر دلیل کے ذریعہ اس کا عدم وقوع ثابت ہوجائے تو نہ ماننا واجب ہوجاتا ہے۔ پس اس مثال میں بسا اوقات اس قول کے سچائی کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور بسا اوقات جھوٹ اور غلطی کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح آسمان کے وجود کا مسئلہ ہے، مسلمانوں کا آسمان کے تعلق سے جس چیز کا اعتقاد ہے وہ امر ممکن ہے، اور عقل اس کے باوجود یا عدم وجود پر کوئی دلیل نہیں رکھتی ہے، بلکہ عقل کے ذریعہ دونوں احتمال کی گنجائش ہے، اس لیے دلیل نقلی کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، اور جب ہم نے قرآن اور حدیث کے نصوص کو غور کیا تو معلوم ہوا کہ آسمان کا خارجی وجود ہے اس لیے آسمان کے وجود کا قائل ہونا ضروری ہوگیا۔

آسمان کے وجود پر چند قرآنی آیتیں اور حدیثیں
”اللہ الذی خلق سبع سموات و من الارض مثلھن“ (الطلاق: 12) اللہ وہ ذات ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل سات زمینیں بنائیں۔
سورۃ فصلت میں 9۔12 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: کہہ دو کہ کیا تم واقعی ذات کے ساتھ کفر کا معاملہ کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہو وہ ذات تو سارے جہانوں کی پرورش کرنے والی ہے، اور اس نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ پیدا کئے جو اس کے اوپر ابھرے ہوئے ہیں اور اس میں برکت ڈالی دی اور اس میں توازن کے ساتھ اس کی غذائیں پیدا کیں سب کچھ چار دن میں تمام سوال کرنے والوں کے لیے برابر، پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جب کہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا اور اس سے زمین سے کہا: چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی دونوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں چنانچہ اس نے دو دن میں اپنے فیصلے کے تحت ان کے سات آسمان بنادیے اور ہم آسمان میں اس کے مناسب حکم بھیج دیا اور ہم نے اس قریب والے آسمان کو چراغوں سے سجایا اور اسے خوب محفوظ کردیا یہ اس ذات کی نپی تلی منصوبہ بندی ہے جس کا اقتدار بھی کام ہے جس کا علم بھی مکمل۔ (فصلت 9۔12)
حضرت تھانوی ؒ نے ان دو آیات کے علاوہ اور بھی آیات پیش کی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کا جسم ہے اور اس کا خارجی وجود ہے، اور موجودہ زمانے کے بعض مغربی مفکرین کا جو خیال ہے وہ صحیح نہیں ہے، مغربی مفکرین کا یہ خیال کہ آسمان کا کوئی جسم نہیں ہے بلکہ نگاہ کے انتہا کا نام آسمان ہے، اور کوئی مادی چیز خارج میں موجود نہیں ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ دوسری آیت سے اس فاسد خیال کی تردید ہوجاتی ہے کیوں کہ دوسری آیت میں ہے کہ وہ دھواں ہے اور دخان بھی ایک جسم ہے دیگر اجسام کی طرح، اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے سات آسمان بنائے اور منتہی البصر (تا حد نگاہ) کے ساتھ ہونے کا کیا مطلب ہوگا؟ اسی طرح دوسری آیات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آسمان ایک جسمانی شئی ہے جس کا خارج میں وجود ہے، اور یہ ایک امر ممکن ہے جس میں کوئی استبعادیت اور محال پن نہیں ہے اور جب صحیح روایات سے آسمان کے موجود ہونے کا علم ہوتا ہے تو اس کا قائل ہونا بھی ضروری ہے جیسا کہ قاعدہ کی تشریح میں بیان کیا گیا ہے۔
اسی طرح معراج کی احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کے دروازے ہیں جو کھلتے اور بند ہوتے ہیں اور حضرت جبرئیل نے دروازہ کھلوایا تھا ان کے لیے دروازہ کھولا گیا۔
اس کے بعد حضرت تھانوی ؒ نے فیساغورسی نظریہ کی تردید کی ہے، فرماتے ہیں جو فیساغورسی نظریہ کہ آسمان کے موجود نہیں ہے کو دلیل کے طور پر تسلیم کرے وہ خالص جہالت میں ہے، اس لیے کہ اس نظریہ کی غایت اور انتہاء یہ ہے کہ تمام حرکات کا وجود خلاء میں ممکن ہے، آسمان کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں ہے، حالاں کہ یہ بات معلوم ہے کہ کسی چیز کی حاجت کا نہ ہونا یہ اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ بتاؤ کہ اگر کوئی کام حکومت کے ملازمین پر موقوف نہ ہو تو کیا یہ اس کے موجود نہ ہونے کی دلیل ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کیوں کہ اس امر کو وجود کسی ملازم کے وجود موقوف نہیں ہے۔ بلکہ کسی خارجی دلیل کے ذریعہ اس کے وجود پر استدلال ممکن ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں