افغانستان: اقوام متحدہ طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں 4 ہزار اسکول کھولے گا

افغانستان: اقوام متحدہ طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں 4 ہزار اسکول کھولے گا

اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے ‘یونیسف’ اور افغان طالبان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے مطابق یونیسف، افغانستان کے ان علاقوں میں غیر رسمی اسکولوں کی تعمیر کرے گا جہاں طالبان کا کنٹرول ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی یونیسف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
یونیسف اور طالبان کے درمیان طے پانے والا ‘ہلمند سنگین ورک پلان’ آئندہ برس دسمبر مکمل تک ہو گا جس کی توسیع کا دار و مدار فریقین کے درمیان ہم آہنگی پر ہو گا۔
اس معاہدے کے تحت کھلنے والے غیر رسمی اسکولوں کے لیے فنڈز کا انتظام مختلف گروپس کریں گے۔ جن میں گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن، دی بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور دیگر شامل ہیں۔
یونیسف کے افغانستان میں تعینات عہدیدار سام مورٹ کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے ایک لاکھ 40 ہزار بچے تعلیم حاصل کر سکیں گے۔
افغانستان میں لگ بھگ 37 لاکھ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
سام مورٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس معاہدے کے ذریعے یونیسف افغان صوبوں ہلمند، قندھار، ارزگان اور فریاب میں 4000 غیر رسمی اسکولوں کا آغاز کرے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے ان صوبوں میں 680 غیر رسمی اسکول پہلے سے ہی جاری ہیں۔ ان کے بقول اس معاہدے کے بعد ان اسکولوں کی تعداد 4000 ہو جائے گی۔
سام مورٹ کے مطابق ایک کلاس 35 طلبہ پر مشتمل ہو گی اور ان کلاسوں کا آغاز اگلے سال مارچ تک کر دیا جائے گا۔ جب افغانستان میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے۔
معاہدے سے متعلق سام مورٹ کا مزید کہنا تھا کہ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ہر بچہ اسکول جائے اور خاص طور پر لڑکیاں دور دراز کے اسکولوں میں محفوظ طریقے سے جا سکیں۔
سام مورٹ کے بقول اس وقت جو بچے اسکول نہیں جاتے ان میں سے 60 فی صد لڑکیاں ہیں۔ جب کہ جن علاقوں تک رسائی مشکل ہے وہاں ان لڑکیوں کی تعداد 80 فی صد تک ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پیش رفت مقامی طالبان رہنماؤں اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مقیم طالبان کے سرکردہ افراد کے ساتھ لگ بھگ دو برس تک مذاکرات کے بعد ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی افغانستان میں جاری پولیو مہم کی وجہ سے اس بات پر بھی گفتگو کی گئی کہ طالبان اور کون سی دیگر سروسز چاہتے ہیں۔
معاہدے سے متعلق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ یہ اچھا اقدام ہے اور وہ ان اسکولوں کے لیے ان علاقوں میں انتظامات کریں گے۔ جہاں ان کا کنٹرول ہے۔
سام کے بقول اس وقت جو بچے اسکول نہیں جاتے، ان میں سے 60 فی صد لڑکیاں ہیں۔ (فائل فوٹو)

سام مورٹ کا مزید کہنا تھا کہ یونیسف نے افغان وزارتِ تعلیم کو معاہدے سے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔ ان کے بقول نئے اساتذہ کی بھرتی کے لیے کیے جانے والے ٹیسٹ وہی ہوں گے جو کہ وزارتِ تعلیم کرتی ہے اور اس کا انعقاد یونیسف اپنے پارٹنرز کے ذریعے کرے گی۔
طالبان اور یونیسف کے درمیان یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب افغان حکومت اور طالبان ستمبر سے امن مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور حال ہی میں دونوں فریقین نے بات چیت جاری رکھنے کے لیے مذاکرات کے ضوابط پر اتفاق کیا ہے۔
دونوں فریقین نے مذاکرات میں 14دسمبر سے 5 جنوری تک کا وقفہ لیا ہے اور اس کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ جن کا مقصد افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے اتفاق رائے سے راستہ تلاش کرنا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں