اسلاف کی علمی و اخلاقی روایات کے امین ایک ایک کرکے بزم دنیا کو خیر باد کہہ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔ سن 70 کی دہائی سے ہمت و استقامت کے ساتھ قرآن و حدیث کی تدریس کی مبارک مسند پر جلوہ افروز رہ کر تشنگان علم کو سیراب کرتے کرتے آخر مفتی زرولی خان بھی مسافران آخرت میں شامل ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
مفتی زرولی خان صاحب چار سال سے سانس کے عارضے میں مبتلا تھے۔ چند ماہ سے بستر علالت پر تھے۔ شدید علالت میں کبھی ان کی مسند تدریس ویراں نہ ہوئی۔ کورونا کے سبب لاک ڈاون کے دنوں میں انہوں نے آن لائن قرآن کے دروس دیے۔
زندگی کے آخری جمعۃ المبارک کی تقریر تو اندازہ ہوا کہ صحت کافی بہتر ہوگئی ہے، مگر اچانک پھر شب کو انہیں دل کا عارضہ ہوا۔ ہسپتال منتقل کردیے گئے مگر جانبر نہ ہوسکے۔ ان کے کوچ کر جانے سے ہم ایک ایسے حق گو اور جری عالم دین سے محروم ہوگئے جنہیں قرآن و حدیث سے عشق اور کتابوں سے جنون کا رشتہ تھا۔ ان کی ساری زندگی اس عشق اور اس جنون کی عملی تصویر تھی۔ ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا وہ کبھی پر نہ ہوسکے گا۔
مفتی صاحب اپنی وضع کے منفرد عالم دین تھے۔ وہ اسلاف کی روایات پر شدت سے کاربند تھے۔ ان کی تحریر و تقریر میں اسلاف کی علم پروریوں اور اخلاقی قدروں کے حوالے بکثرت ملتے تھے۔ علامہ انورشاہ کشمیری اور ان کے شاگرد رشید امام محمد یوسف بنوری سے انہیں والہانہ عقیدت و شیفتگی تھی۔ دونوں حضرات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا چہرہ وارفتگی اور انبساط کی دلکشا کیفیت کی معصوم تصویر بن جاتا تھا۔ جیسے ایک ننھا طالب عالم اپنے محسن استاذ کے روبرو ادب و تواضع کا پیکر بنے کھڑا ہو۔ کتابیں ان کا اوڑھنا پچھونا تھیں۔ کتابوں کے نایاب مخطوطوں کے متلاشی رہتے تھے۔ چنانچہ بیرون ممالک سے منہ مانگی قیمت پر انہوں نے بیسیوں نایاب کتابوں کے مخطوطے حاصل کیے۔
وہ کتاب پڑھتے ہی نہ تھے بلکہ دماغ کی لوح پر اس کا عکس اتارلیا کرتے تھے۔ گفتگو کے دوران، روانی سے بے تکان وہ کتابوں کے حوالے دیا کرتے تھے۔ میں نے راسخ اہل علم کی مجلسوں میں علمی مسائل پر ان کی گفتگو سنی۔ وہ اپنے بے باک اور دل پذیر طرز تکلم کے لیے مشہور تھے۔ ممتاز اہل علم کی مجلس میں گفتگو کرتے تو سب پر حاوی ہوجاتے تھے۔ عربی، فارسی، اردو اور پشتو کے بے شمار اشعار نوک زبان تھے۔ متقدمین و متاخرین کے کتابوں کے عربی متون وہ اہل علم کی مجلس میں اس انشراح سے پیش کرتے تھے جیسے ان کے سامنے درسگاہ کے طلبہ بیٹھے ہوں۔ عربی عبارت میں وہ اعراب کی صحت کا خیال رکھتے تھے۔ خوابوں کی تعبیر میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ بذلہ سنج، حاضر جواب اور بدیہہ گو تھے۔ موقع محل کی مناسبت سے برجستہ چٹکلہ، شعر یا کوئی ضرب المثل پیش کرنے میں شاید ہی ان کی نظیرنہیں مل سکے۔ درس میں، مجلسی گفتگو میں وہ عربی فارسی پشتو اور اردو کے اشعار اپنی خاص لے میں پڑھتے۔
مفتی صاحب کے اس طور سے میری طرح بہتوں کی محبت تھی کہ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بات کہہ جاتے۔ اس ادا سے ان کے بعض معاصرین کو خفگی ہوجاتی تا ہم اپنی غلط فہمی پر متنبہ ہونے کے بعد اعلانیہ رجوع کو کبھی انہوں نے انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اہل علم سے محبت کرتے تھے۔ ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے کہ پشاور سے آئے ہوئے علماء کے ایک وفد کے ساتھ ہم مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، جس کے لیے میں مفتی صاحب سے پیشگی وقت لیا تھا۔ جب جامعہ احسن العلوم کی گلی میں داخل ہوئے تو طلبہ دو رویہ قطار بنائے، پھول ہاتھ میں لیے مہمانوں پر نچھاور کرنے لگے۔ گیٹ پر پہنچے تو خود مفتی صاحب دو بکروں اور ایک بڑے جانور کے ساتھ استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ تینوں کو موقع پر ہی ضیافت کے لیے مہمانوں پر ”قربان“ کردیا۔
کراچی میں ان کے جو چند بے تکلف دوست تھے۔ ان میں ہمارے استاذ ڈاکٹر مولانا عادل خان شہید بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب جب ملائشیا میں مقیم تھے تو اس ناکارہ کے موبائل سے واٹس ایپ پر ان کو محبت بھرا صوتی پیام دیا۔ اس دوران مفتی صاحب دورہ حدیث کی کلاس تشریف میں لے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ پیغام بھی پشتو زبان میں ریکارڈ کرواتے رہے۔ مقفی اور بلیغ دعائیہ کلمات اس قدر روانی سے کہتے رہے کہ ان کی زبان کی فصاحت پر رشک آتا۔ مفتی صاحب نے اس گفتگو میں فرمایا: ”ڈاکٹر صاحب! آپ کراچی کو یتیم کرکے چلے گئے ہیں۔ خدارا واپس لوٹ آیئے۔ یہاں مدارس اور مساجد کا مقدمہ جس جرأت سے آپ لڑسکتے ہیں، وہ جرأت کسی میں نہیں۔“
ان کے دوست مولانا ڈاکٹر عادل خان پاکستان لوٹ آئے اور مدارس ہی کا مقدمہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ دونوں میں قدر مشترک جرأت تھی۔ آج مفتی زرولی خان کی روح بھی اپنے یار بے تکلف سے مل کر شادم کام ہوئی ہوگی۔
آپ کی رائے