معاصر تاریخ کے ماہر اور بلوچستان میں مکتب دیوبند کے اثرات کے بارے کتاب لکھنے والے مولوی عبدالغفور بلوچ کے ساتھ چند لمحے؛

بلوچستان میں دینی انقلاب اور مکتب دیوبند کے اثرات

بلوچستان میں دینی انقلاب اور مکتب دیوبند کے اثرات

نوٹ: جب 1857 ء میں ارضِ ہند پوری طرح برطانوی سامراج کے قبضے میں آیا اور مسلمانوں کو عسکری میدان شکست سے دوچار ہونا پڑا، مختلف مسلم شخصیات اور اداروں نے علمی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں کا رخ کیا۔ دارالعلوم دیوبند کی تاسیس، حریت پسند جماعتوں میں شمولیت اور ان کے ساتھ تعاون، خفیہ عسکری سرگرمیاں اور تحریک ترک موالات، تحریک خلافت و۔۔۔ سب کا شمار ان ہی سرگرمیوں اور جدوجہد میں ہوتاہے۔ ایران کے مشرقی صوبوں میں رہنے والے سنی باشندے اپنی دینی حمیت اور بیداری سے پہچانے جاتے ہیں اور اس اسلامی بیداری کی جڑیں ہند میں پیوست ہیں۔ گزشتہ ایک صدی میں ایران کے متعدد بلوچ طلبا طلبِ علم کی نیت سے برصغیر ہند کی طرف سفر کرکے واپس ہونے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں فکری، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
مولوی عبدالغفور دورانی، فاضل دارالعلوم کراچی اور سیستان بلوچستان یونیورسٹی سے تاریخ میں ماسٹر کرنے والے استاذ ہیں جو دارالعلوم زاہدان اور سرکاری سکولوں میں تاریخ پڑھاتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ”رہ آورد شرق“ کے نام سے چھپی ہے جس کا موضوع ہے بلوچستان، خاص کر ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں برصغیر کے علما اور بطور خاص دارالعلوم دیوبند کے اثرات؛ یہ کتاب دراصل ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے بطور مقالہ پیش ہوئی ہے۔ اسی حوالے سے اہل سنت ایران کی آفیشل ویب سائٹ (سنی آن لائن) نے مولوی دورانی سے گفتگو کی ہے جس کا اردو ترجمہ نذرِ قارئین ہے:

سب سے پہلے اپنی کتاب کے نام (رہ آورد شرق) کے بارے میں بتائیں۔
’رہ آورد‘ کا مطلب ہے تحفہ، ہدیہ اور کوئی بھی چیز جو کہیں سے کوئی شخص بطور سوغات لاتاہے۔ ’شرق‘ کا مفہوم وسیع ہے۔ مشرق ایک لحاظ سے مغربی دنیا اور یورپ کے مقابلے میں آتاہے جو مختلف تہذیبوں اور خاص کر ابراہیمی مذاہب کی جائے پیدائش ہے۔ عالم اسلام اور علاقائی جغرافیہ کے لحاظ سے ان مسلم ممالک کو مشرقی ممالک کہتے ہیں جو ایران کے مشرق میں واقع ہیں۔ ایران ہی کی حدود میں مشرقی صوبے وہ ہیں جن کی تہذیب اور ثقافت کا حوالہ دیاجاتاہے۔
لہذا ’رہ آورد شرق‘ کا مطلب ہے مشرق کا تحفہ جو ایک روحانی پیغام اور علمی و دینی ہدیہ ہے جسے ایرانی بلوچ علما و طلبا نے برصغیر ہند سے یہاں لایاہے اور اپنے علاقے میں فکری، ثقافتی اور معاشرتی انقلاب لانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

آپ نے اس موضوع کو اپنے مقالہ کے لیے کیسے چنا؟
ہمارے اکابر اور بزرگوں نے طلب علم اور تزکیہ کے حوالے سے بہت ساری تکلیفیں برداشت کرکے دینی مدارس اور مساجد کو تعمیر کی اور سیستان بلوچستان میں ایک عظیم تبدیلی لاچکے ہیں۔ بندہ انہیں اپنا محسن سمجھتاہے اور ان کی خدمات اور محنتوں کی تلافی نہیں ہوسکتی، لیکن یہ قرض ادا کرنے کے لیے میں نے اپنے ایم اے کے مقالے کا عنوان ’دارالعلوم دیوبند اور اس کے اثرات بلوچستان پر‘ رکھا جو منظور ہوا اور 2011ء میں اس کا دفاع ہوا۔

کیا اس مقالے کی شکل اور مضامین بعینہ کتاب میں موجود ہیں؟
مقالہ کو ایڈیٹ کرکے اس میں نئے مضامین شامل کیے گئے جو وقتا فوقتا سنی آن لائن ویب سائٹ کے ذریعے چھپ چکے ہیں۔ اس کو کتابی شکل دینے میں کچھ ساتھیوں نے مدد کی اور چند مہینہ محنت کے بعد اشاعت کی اجازت ملی۔ پویان فرنگار نے اس کتاب کو پبلش کی ہے اور صدیقی ادارہ برائے نشرواشاعت سے یہ کتاب دستیاب ہے۔ کتاب کے بعض مضامین متعلقہ حکام کے حکم پر حذف کردیے گئے ہیں۔

کتاب کی پہلی فصل میں برطانوی سامراج کے خلاف ہندی مسلمانوں کی تحریک مزاحمت کے متعلق ہے؛ برصغیر کے مسلمانوں اور علمائے کرام نے انگریزوں سے مقابلہ کے لیے کیا طریقہ اپنایا تھا کہ اس سے آپ متاثر ہوئے اور اس کو موضوع بنایا؟
ہندوستان کے مسلمانوں اور علما نے 1857ء کی جنگ آزادی میں سخت شکست کا مزہ چکنے کے بعد اپنی مزاحمت کا طریقہ بدل دیا۔ انہوں نے سیاسی اور ثقافتی مزاحمت کو عسکری مزاحمت کی جگہ اپنائی؛ وہ بخوبی جانتے تھے مسلم کمیونٹی میں عسکری لحاظ سے سامراج طاقت سے لڑنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے۔ لہذا انہوں نے ایک ایسی سٹریٹجی اختیار کی تاکہ نئی نسلوں کو اس طرح تربیت دیں جن کے دل ودماغ میں انگریز سے نفرت پیدا ہو اور حریت پسندی کی روح ان میں پھونک کر مسلمان نوجوانوں سمیت سب ہندی مسلمانوں کو انگریزوں سے بے زار بنائیں۔ اسی پالیسی کے نتیجے میں بالاخر ایک صدی تک جدوجہد کے بعد انہیں رہائی اور آزادی مل گئی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اگست 1947ء کو انہیں آزادی نصیب ہوئی۔

بھارت اور پاکستان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی ملی، آپ کے خیال میں یہ آزادی علما کے جدوجہد کا نتیجہ تھی یا عالمی جنگوں کے بعد انگریزوں کی کمزوری کا فطری ثمرہ؟
عالمی جنگوں سے پہلے مزاحمت کی تحریک شروع ہوئی اور دوسری جنگ عظیم تک جاری رہی، لیکن اس جنگ کے بعد حالات کا رخ کچھ اس طرح بدل گیا کہ برطانیہ سمیت دیگر سامراجی طاقتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ اپنی کالونیوں اور مقبوضہ علاقوں کو مزید قابو میں نہیں رکھ سکتیں۔ اسی لیے انہیں ایشیا اور افریقا میں متعدد ملکوں کو آزادی دینی پڑی جن میں بھارت اور پاکستان شامل ہیں۔ پہلی جنگ عظیم سے مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لیے تحریک خلافت کا آغاز کردیا، پھر سامراج کو معاشی طورپر کمزور بنانے کے لیے انگریزی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جس سے برطانیہ کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا۔

ایرانی بلوچستان کے علمائے کرام نے ارض ہند سے کیا تحفہ لایا تھا؟
سماجی، علمی، ثقافتی اور دینی بیداری ہندوستان سے یہاں لا کر بلوچستان کے علما نے اس وقت کے قومی، علاقائی اور مروجہ اقدار میں اضافہ کیا اور ملک میں رنگارنگی کے باعث بن گئے۔ متعدد دینی مدارس کا سنگ بنیاد رکھ کر کئی عشروں کے جدوجہد سے بلوچستان میں سماجی، فکری اور اعتقادی تبدیلی لائی اور شرک و بدعت اور خرافات کی بیخ کنی کی۔

بلوچستان میں علمائے کرام نے ایک خاص تحفہ لایاہے جو جماعت دعوت و تبلیغ سے پہچانا جاتاہے؛ بلوچستان میں اس تحریک کی کامیابی کے بارے میں قارئین کو بتائیں۔
دعوت و تبلیغ مختلف مسلم طبقوں میں عملی اسلام پھیلانے کی تحریک ہے۔ جب مسلمان عقیدہ اور عمل میں کمزوری کا شکار تھے، بزرگان دعوت و تبلیغ خاص کر مولانا الیاس رحمہ اللہ نے مسلمانوں میں ایمان اور نیک اعمال کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے سوچا اور بڑی محنت کے بعد اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تحریک کا مقصد ہے مسلمان، اچھے مسلمان بن جائے اور غیرمسلم بھی اسلام کی نعمت سے مالامال ہوجائیں۔ مسلمان اپنی پیدائش کا مقصد سمجھ لیں اور بامقصد زندگی گزاریں۔ مسلم عوام میں سب سے زیادہ موثر اصلاحی تحریک یہی جماعت ہے جو غیرمسلموں میں بھی اسلام پھیلنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔

آخری سوال؛ آپ کے علاوہ اس کتاب کو کوئی اورشخص لکھتا، پھر بھی قارئین کو مطالعہ کا مشورہ دیتے؟
بلاشبہ اکثر بلوچوں کے لیے یہ اہم ہے کہ صوبہ سیستان بلوچستان میں لوگوں کی دین داری تاریخ کیا ہے، مکتب دیوبند نے یہاں کیا اثرات چھوڑے ہیں، علما نے اس حوالے سے کیا کردار ادا کیا ہے اور ثقافتی طور پر بلوچ عوام کے بزرگانِ ہند سے کیا تعلقات تھے۔ اگر اس کتاب کو میرے علاوہ کوئی اور شخص لکھتا، پھر بھی میرا مشورہ سب طبقوں کے لوگوں کو یہی تھا کہ اس کتاب کو زیرِ مطالعہ رکھیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں