اہانت رسول اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں

اہانت رسول اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور قلبی تعلق لگاؤ ہمارا دینی و ایمانی فریضہ ہے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی وابستگی اور ان سے اظہار عقیدت ہر مسلمان کے دل کی صدا اور اس کی ضمیر کی آواز ہے، آپ کی اطاعت وپیروی اور ان سے سچی محبت دونوں جہانوں میں فلاح و کامیابی کی ضامن ہے، اور دنیا و آخرت میں حقیقی سعادت کے حصول کا ذریعہ ہے۔

حب رسول کامل ایمان کی نشانی
خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین (بخاری)۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

حب رسول سے ایمان میں حلاوت و چاشنی
ایک روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے اندر تین صفا ت پائی جائیں تو اسے ایمان کی حلاوت و مٹھاس نصیب ہوجاتی ہے:
(۱) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبت پائی جائے۔
(۲) کسی انسان سے محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے محبت ہو۔
(۳) شرک کی طرف پلٹنا ایسے ہی ناپسند ہو جیسے ایک آدمی کے لیے زندہ آگ میں جلنا ناپسند ہوتا ہے۔

حلاوت و مٹھاس کا مفہوم
حدیث بالا میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کے اندر تین صفات پائے جانے پر اسے ایمان کی حلاوت اور مٹھاس کی ضمانت دی ہے، یہاں حلاوت سے صرف معنوی مٹھاس یعنی خوشی، مسرت اور اطمینان مراد نہیں ہے؛ بلکہ حسی حلاوت اور مٹھاس مراد ہے، ایک شخص کسی کو اچار کھاتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے منہ میں پانی آجاتا ہے اور اسے بھی اچار کھانے کو جی چاہتا ہے، یا کسی کو مٹھائی کھاتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کا جی بھی للچاتا ہے، اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود مٹھائی کھا کر لطف اندوز ہو رہا ہے، ایسے ہی جس بندہ مومن میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں، اسے بھی ایمان کی حلاوت اور چاشنی نہ صرف دل میں محسوس ہوتی ہے بلکہ اسے ظاہری اور حسی طور پر بھی لطف اور مزہ محسوس ہوتا ہے۔

میدان محشر میں اللہ کے رسول
ایک روایت میں ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے آپ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضور روز محشر آپ کو ہم کہاں تلاش کریں؟ فرمایا: مجھے تین مقامات پر تلاش کرنا: جہاں نامہ اعمال کا وزن ہوگا، حوض کوثر پر اور پل صراط پر۔

توہین رسالت اور صحابہ کرام کا رد عمل
واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت و عقیدت رکھنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور تعلق و وابستگی ہی ہمارا سرمایہ ایمان ہے، یہی ہمارے لئے دونوں جہانوں میں متاع بیش بہا ہے، اور اسی پر ہماری نجات اور جہنم سے گلو خلاصی ممکن ہے، ضرورت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری صرف زبانی محبت نہ ہو؛ بلکہ حقیقی محبت کے جو تقاضے ہیں انہیں بھی ہم پورا کریں، اور محبت کے جو عملی مظاہر ہیں ان کو بھی ہم اپنی زندگیوں میں برتیں، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے، آپ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے، آپ کی حفاظت و حمایت کے لئے تن من دھن کی بازی لگا لیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ادنی گستاخی کی وجہ سے وہ چراغ پا اور مشتعل ہوجاتے تھے، اور گستاخی کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر ہی انہیں سکون اور اطمینان نصیب ہوتا تھا، ذیل میں اس حوالے سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے چند واقعات ذکر کیے جاتے ہیں جو اسلامی تاریخ کا ایک روشن اور تابناک باب ہے، اور ہمارے لئے مشعل راہ اور رفیق خضر بھی ہے۔

اللہ کے رسول پر حضرت موسی کی فوقیت بیان کرنے پر یہودی کو طمانچہ
ایک یہودی نے ایک صحابی کے سانے حضرت موسی علیہ السلام کے فضائل بیان کئے، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی فوقیت و برتری کو جتلایا، اتنا سننا تھا کہ صحابی جلیل طیش میں آگئے، اور انہوں ن ے اس کو ایک طمانچہ رسید کردیا، ظاہر ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام بھی اللہ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں، اور ان پر ایمان لانا ہمارے لیے ضرورت ہے، کوئی مسلمان ان کی نبوت کا انکار کرے تو وہ دائرے اسلام سے خارج ہوجائے گا، تا ہم صحابی کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو قابل تقلید محبت اور شیفتگی تھی اس کی وجہ سے یہودی کی بات پر وہ آپے سے باہر ہوگئے، اور اس کو ایک طمانچہ رسید کردیا۔

نابینا صحابی کا توہین رسالت کی مرتکب باندی سے انتقام
ایک نابینا صحابی تھے، ان کی ایک باندی تھی جو ان کی خدمت گزار تھی، ان کے کاموں میں تعاون کرتی تھی، اور ان کی ضروریات پوری کرتی تھی، یہ باندی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی، اور گستاخانہ اشعار آپ کی شان میں پڑھا کرتی تھی، نابینا صحابی نے اس پر اسے متنبہ کیا، اور اسے باز رہنے کی سختی سے تاکید کی؛ لیکن وہ باز نہیں آئی، نابینا صحابی نے ایک خنجر اپنے پاس چھپا کر رکھ لیا، اور جب اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ اشعار پڑھے، تو وہ خنجر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا، اور اس کو جہنم رسید کر دیا، حالاں کہ یہی باندی ان نابینا صحابی کے لئے واحد سہارا تھی، ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وہ ہمہ دم تیار رہتی تھی؛ لیکن اس سب کے باوجود صحابی کی غیرت ایمانی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو روئے زمین پر زندہ چھوڑنا گوارا نہ کیا، اور ان کی بے قرار روح کو گستاخ کا سر تن سے جدا کرکے ہی قرار اور سکون ملا۔

گستاخ رسول کعب بن اشرف کا قتل
مدینہ کے اندر ایک یہودی سردار کعب بن اشرف رہا کرتا تھا، یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے بغض رکھتا تھا، اور ہمہ وقت انہیں تکلیف پہنچانے کی کوشش میں رہتا تھا، اس کے علاوہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑی گستاخیاں کرتا تھا، اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں بیہودہ گوئی کرتا تھا، ایک مرتبہ اللہ کے رسول نے فرمایا: کون ہے جو مجھے اس یہودی کے شر سے نجات دلائے گا؟ اتنا سننا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان چھڑکنے والی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ چشم و ابرو کی منتظر برگزیدہ اور پاکباز جماعت سے ایک صحابی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اور انہوں نے گستاخ رسول کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ذمہ داری لی، اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا کر اس ملعون اور گستاخ کا سر تن سے جدا کردیا۔

گستاخ رسول ابورافع کا قتل
مدینے سے کافی دور پر ایک یہودی ابورافع تھا، اس کا نام عبداللہ بن ابی الحقیق تھا، یہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاتا تھا، اور آپ کی ہجو بیان کیا کرتا تھا، گستاخ رسول کعب بن اشرف کو ٹھکانے لگانے کا قابل فخر تاج قبیلہ اوس کے سر سجا تھا، قبیلہ خزرج کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے کی ایک عمدہ اور روشن مثال پیش کی، اور اس گستاخ کا سرتن سے جدا کرنے کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چاہی، آپ نے انہیں اجازت مرحمت فرمادی، تا ہم انہیں اس بات کی تاکید کی کہ کسی بچے یا عورت کو قتل نہ کرنا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالی عنہ اس گستاخ کے قلعے میں گئے، اور اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

مبارک مہم اور در پیش خطرات
حضرات محدثین کرام نے لکھا ہے کہ کعب بن اشرف اور ابورافع کو قتل کرنے کی مہم جن دو خوش نصیب اور خوش قسمت صحابی نے انجام دی تھی ان کی پیر کی ہڈی اس اہم مہم کو سرانجام دیتے وقت ٹوٹ گئی تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ گستاخ رسول کا سر قلم کرنے کی مہم سازگار اور اطمینان بخش حالات میں انجام دیا جائے، اور اس میں کوئی کلفت اور پریشانی پیش نہ آئے، کسی اضطراب اور بے چینی کا عاشق رسول کو سامنا نہ کرنا پڑے؛ بلکہ اس راہ محبت وفا میں قدم قدم پر پریشانیاں پیش آتی ہیں، اس خارزار منزل کو قطع کرنے کے دوران دامن الجھتا ہے، حالات کی ستم ظریفیاں جانثاران رسول کو پا بہ زنجیر بنانے کی کوشش کرتی ہیں؛ لیکن ایک مخلص اور غیرت مند مسلمان ان کی پرواہ نہیں کرتا، ان عوائق و مشکلات کو کسی خاطر میں نہیں لاتا، اور کرتا وہی ہے جو اس کے ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا مظہر ہے۔

فرانس حکومت اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت
فرانس میں ابھی چند دنوں پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنانے کا جو نامبارک سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، چچینیا کا عبداللہ نامی اٹھارہ سالہ شخص جس نے ایک فرانسیسی ٹیچر کو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے دکھانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا، گو پولیس نے گولی مار کر اسے شہید کردیا؛ لیکن ایک گستاخ رسول کا سر قلم کرکے اس عبداللہ نے ایک عظیم الشان کارنامہ انجام دیا، اور پوری دنیا کے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا، اللہ اس کی مغفرت فرمائے، اور اس کی لغزشوں کو معاف فرمائے، اور اپنی خاص جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔

توہین رسالت کسی قیمت پر ایک مسلمان برداشت نہیں کرسکتا
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت ہمارے دین و ایمان کا سرمایہ ہے، یہ ہر مسلمان کی متاع عزیز ہے جو اسے آخرت میں کام آئے گی، ایک مسلمان اپنی شان میں گستاخی برداشت کرسکتا ہے، والدین کی شان میں گستاخی کو نظرانداز کرسکتا ہے، اپنے عزیز و اقارب کے توہین آمیز خاکوں سے تجاہل عارفانہ برت سکتا ہے؛ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ادنی سے گستاخی کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتا، اور گستاخ رسول کی سزا صرف اور صرف قتل ہے، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تقدس کو پامال کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی، اسے بنیاد پرستی کا نام دیا جائے، یا اسلامی دہشت گردی کا عنوان دیا جائے، یا قدامت پرستی اور ترقی کا پہیہ الٹا گھمانے کا مسلمانوں کو طعنہ دیا جائے، ہم ان طعنوں اور بھپتیوں کو کلاہ افتخار سمجھ کر اپنے سروں پر سجانے کے لیے تیار ہیں؛ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کردارکشی اور ان کی ذات اقدس پر لب کشائی کرنے کی ہم کسی کو اجازت نہیں دے سکتے۔

ہماری حکومت کا دوہرا رویہ
اس پورے واقعے کی ذمہ دار فرانسیسی حکومت ہے جس نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی پشت پناہی کی ہے، اور اس کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کی ہے، اور مزید توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا عندیہ ظاہر کیا ہے، اس موقع پر ہمارے ملک ہندوستان کی حکومت میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ بڑا افسوسناک ہے، اور اس پر اس کی جتنی مذمت بھی کی جائے کم ہے، جس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہوئی، اور مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا گیا، اس وقت ہماری حکومت بل میں گھسی ہوئی تھی، او رجب اس کا فطری اور بالکل صحیح اور درست ردعمل آیا، اور گستاخ رسول کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا گیا، تو ہماری وزارت خارجہ کی جانب سے اس پر افسوس ظاہر کیا جاتا ہے، اور فرانس کی حمایت و تائید میں ہماری حکومت کھڑی ہوجاتی ہے۔

امت مسلمہ کی ذمہ داری
ایسے وقت ضرورت ہے کہ ہم غیرت و حمیت کا ثبوت دیں، اور اس طرح کے دلخراش واقعات کو روکنے کے لئے ہم سنجیدہ اور مضبوط لائحہ عمل تیار کریں، فرانس کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، اور معاشی لحاظ سے اسے زک اور نقصان پہنچائیں، اقوام متحدہ کے دفاتر میں اپنا احتجاج درج کروائیں، اور اپنے جذبات اور مطالبات کو میمورنڈم کی شکل میں پیش کریں، مسلم ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ فرانس سے سفارتی تعلقات بالکلیہ منقطع کرے یا محدود بنانے کی کوشش کرے، بحیثیت مسلمان ہم سب لوگوں کی ذمہ داری ہے سیرت رسول کا مطالعہ کریں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے عطر بیز پھولوں سے اپنے کردار کے بام و در کو سجائیں، اسوہ نبوی کے تابندہ نقوش کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کریں، کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھیں، اور اپنی سہولت سے روزانہ کے لئے درود کی مقدار متعین کریں، اور پابندی سے اس مقدار کو پورا کرنے کا اہتمام کریں۔

افادات: حضرت مولانا مفتی محمدجمال الدین صاحب قاسمی
ضبط و ترتیب: مفتی محمد عبداللہ قاسمی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں