اس وقت مسلمانوں میں زوال وادبار کی جو کھلی ہوئی علامتیں اور بے برکتی، نحوست، فضیحت ورسوائی بدنامی وجگ ہنسائی کے جو قومی اسباب پائے جاتے ہیں ان میں تعلقات کی کشیدگی،قطع رحمی اور اس سے آگے بڑھ کرنا چاقی،عداوت، ایک دوسرے کی عزت کے درپے ہونا، اس کو خاک میں ملانے کی کوشش کرنا اور اس کے نتیجہ میں مقدمہ بازی،مال اور وقت کی بربادی اور نہ ختم ہونے والی پریشانیاں ہیں۔ سینکڑوں، بلکہ ہزاروں خاندان ہیں جن میں زمین وجائیداد کے سلسلہ میں اور کبھی بعض افسوس ناک واقعات کے نتیجہ میں سخت درجہ کی نا چاقی وکشیدگی دیکھنے میں آتی ہے، خاندان دوحصوں میں بٹ جاتا ہے، ملنا جلنا،سلام وکلام بھی موقوف ہوجاتا ہے۔بعض اوقات صرف غمی کے موقع پر برسوں کے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں اور بعض اوقات اس کی بھی توفیق نہیں ہوتی،سالہا سال تک اور نسل در نسل اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور دل ودماغ کی بہترین صلاحیتیں اورتوانائیاں دوسروں(اور وہ غیر خونی اور رشتہ کے بھائیوں)کو نیچا دکھانے اور ان کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجوادینے میں صرف ہوتی ہے،کسی بھائی کی سبکی اور ناکامی پرایسی خوشی منائی جاتی ہے جیسے کبھی(دورِ اقبال میں)کسی قلعہ کی فتح اور کسی نئی سلطنت کے حصول پر منائی جاتی تھیں،جو لوگ اس پستی سے کچھ بلند ہیں اور اتنے گئے گزرے نہیں اور ان کو کچھ دینی تعلیم یا نیک صحبت حاصل ہے اور وہ اچھے دین دار نظر آتے ہیں وہ بھی صلہ رحمی کے مفہوم سے نا آشنا، اس کے فضائل سے بے خبر،قرآن وحدیث میں اس کا جو درجہ ہے اس سے یکسر غافل اور دولت بے بہا اور اس سنت جلیلہ سے جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو نہایت محبوب اور عزیز تھی اور جس کا رنگ سیرت نبوی علی صاحبہا التحیة والسلام میں بہت نمایاں اور غالب ہے، بالکل محروم ہیں،بزرگوں کی دوستی کا نباہ ،پرانے تعلقات کی پاس داری،والدین کے دوستوں کے ساتھ سلوک اور اس کو والدین ہی کی محبت وخدمت کا لازمہ سمجھنا، چھوٹوں کے ساتھ الفت،بڑوں کاادب تو بہت دور کی باتیں ہیں۔ضابطہ کا تعلق اور قانونی فرائض بھی ادانہیں ہوتے۔اس کا نتیجہ ہے کہ خاندان اور محلے اور پھر گھر جنت کے بجائے جہنم کا نمونہ اور دارالامن ودار السلام ہونے کے بجائے دارالحرب بنے ہوئے ہیں۔زندگی کا لطف اور اجتماعی زندگی، بلکہ اسلامی زندگی کی بھی کوئی برکت نظر نہیں آتی۔پھر اس کے نتیجہ میں غیبی طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطلاع اور وعدوں کے مطابق جو سزائیں مل رہی ہیں اور جو برکتیں سلب ہوتی جارہی ہیں ان کے سمجھنے کے لیے نہ شریعت اور قرآن وحدیث کا ضروری علم ہے، نہ طبیعتوں میں انصاف، نہ وقت میں گنجائش،حالاں کہ قرآن وحدیث میں کھول کھول کر نا اتفاقی،قطع رحمی بغض، کینہ اور انتقامی جذبہ وکارروائی کے انفرادی واجتماعی نتائج بیان کردیے گئے ہیں اور اس کے مقابلہ میں صلہ رحمی،اصلاح ذات البین کی کوشش، عفوودرگزر،ایثار قربانی،حق پر ہوتے ہوئے بھی دب جانے اور قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی،تکلیف پہنچانے والوں کو راحت پہنچانے کی فضیلت اور درجہ پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔اسی زمانہ میں دین کے بہت سے شعبوں میں بہت کام ہوا ہے۔ عبادات، فضائل اعمال پر ایک کتب خانہ کا کتب خانہ تیار ہوگیا ہے،مسائل واحکام پر بھی بڑی بڑی کتابیں تیار ہوگئی ہیں اور کچھ عرصہ سے سیاست واجتماعیت پر بھی بڑی توجہ کی گئی ہے اور اس کے ایک ایک پہلو کو روشن ونمایاں کیا گیا ہے۔ان کوششوں کے اثرات مسلمانوں کی زندگی میں نظر بھی آتے ہیں اور انہوں نے دین کے ان شعبوں میں کچھ ترقی بھی کی ہے، لیکن جہاں تک بندہ کی معلومات ومطالعہ کا تعلق ہے تعلقات کی استواری، صلہ رحمی اور اصلاح ذات البین کے موضوع پر بہت کم کام ہوا ہے اور خاص طور پر آسان اردو اور عام فہم طریقہ پر روز مرہ کی زندگی کے مطالعہ اور واقعات کی روشنی میں بہت کم مضامین ورسائل اور کتابیں لکھی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں ہمارے معاشرہ میں کچھ بہتری کے آثار نظر آتے۔حالاں کہ آپس کے اختلافات وافتراق،قطع رحمی،برادرکشی اور نزاع باہمی کا مرض وہ عام وبا ہے، جس سے مشکل سے کوئی شہر،قصبہ،چھوٹے سے چھوٹا گاوٴں اور حدیہ ہے کہ مشکل سے کوئی محلہ اور خاندان محفوظ رہا ہوگا۔اور اس سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی بری طرح متاثر ہورہی ہے کہ نہ دینی جدوجہدپوری طرح مفید ہورہی ہے اور نہ سیاسی اتحاد وتنظیم کی کوشش بار آور ہورہی ہے ۔ضرورت ہے کہ اس شعبہ کی طرف پوری توجہ کی جائے۔ اس کے بغیر زندگی کی چول صحیح طور پر نہیں بیٹھتی اور عبادات و تعلق باللہ میں بھی قوت قبولیت نہیں ہوتی، یہ مرض جتنا عام اور شدید ہے، اتنا ہی اس کے ازالہ کے لیے قوت،جرأت اور فکر ودل سوزی کی ضرورت ہے۔
شیطان کی شرارت
ایک مرتبہ ایک آدمی نے شیطان کو دیکھا۔اس نے کہا مردود! تو بڑا ہی بد معاش ہے، تو نے کیا فساد مچایا ہوا ہے،اگر تو آرام سے ایک جگہ بیٹھ جاتا تو دنیا میں امن ہوجاتا۔وہ مردود جواب میں کہنے لگا،میں تو کچھ نہیں کرتا، صرف انگلی لگاتا ہوں ۔اس نے پوچھا،کیا مطلب؟شیطان کہنے لگا،ابھی دیکھنا۔قریب ہی ایک حلوائی کی دکان تھی،وہاں کسی برتن میں شیرہ پڑا ہواتھا۔ شیطان نے انگلی شیرے میں ڈبوئی اور دیوار پر لگادی۔مکھی آکر شیرے پر بیٹھ گئی۔ اس مکھی کو کھانے ایک چھپکلی آگئی۔ ساتھ ہی ایک آدمی کام کررہاتھا، اس نے چھپکلی کو دیکھا تو اس نے جوتا اٹھا کر چھپکلی کو مارا۔ وہ جوتا دیوار سے ٹکرا کر حلوائی کی مٹھائی پر گرا۔جیسے ہی جوتا مٹھائی پر گرا تو حلوائی اٹھ کھڑا ہوا اور غصہ میں آکر کہنے لگا،اوئے!تو نے میری مٹھائی میں جوتا کیوں مارا؟ اب وہ الجھنے لگ گئے۔ ادھر سے اس کے دوست آگئے، اُدھر سے اس کے دوست پہنچ گئے۔ بالآخر ایسا جھگڑا مچا کی خدا کی پناہ! اب شیطان اس آدمی سے کہنے لگا ،دیکھ! میں نہیں کہتا کہ میں تو صرف انگلی لگاتا ہوں۔جب اس کی ایک انگلی کا یہ فساد ہے تو پورے شیطان میں کتنی نحوست ہوگی؟!
آپ کی رائے