ناگورنو قرہباخ میں جنگ کے شعلے

ناگورنو قرہباخ میں جنگ کے شعلے

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کئی دہائیوں پرانا تنازعہ پھر سے اٹھ کھڑا ہوا ہے اور قرائن کہتے ہیں کہ اگر یہ آگ جلد نہ بجھائی گئی تو یورپ اور ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
آذربائیجان قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم اکثریتی ریاست ہے جو نوے کی دہائی میں روس سے الگ ہو کر آزاد ریاست بنی۔دوسری طرف آرمینیا بھی روس، جارجیا، ایران، ترکی اور آذربائیجان کے درمیان ایک لینڈ لاکڈ نو آزاد ریاست ہے۔
دونوں ممالک کا تنازعہ ناگورنو قرہباخ پر ہے، جو کہ قانونی طور پہ آذربائیجان کا حصہ ہے لیکن پچھلے تیس برس سے آرمینیائی نسل کے لوگوں کے کنٹرول میں ہے۔
اس خطے کی تاریخ، مذہبی اور نسلی حالات بہت الجھے ہوئے ہیں۔ آرمینیائی نسل کے لوگوں کا ترکوں سے تنازعہ پرانا ہے اور تاریخ ترکوں اور آرمینیائیوں کے اپنے اپنے سچ، جھوٹ سے بھری پڑی ہے۔
ترکی سے آرمینیائی نسل کے باشندے ہجرت کر کے فرانس میں آباد ہوتے رہے ہیں۔ آج اس تنازعے میں فرانس کا جھکاؤ آرمینیا کی طرف ہے، جس کی وجہ بخوبی بھانپی جا سکتی ہے۔ فرانس آرمینی نسل کشی کو بھی تسلیم کرتا ہے۔
آذری اور آرمینائی آبادی کا تنازعہ صدیوں پرانا ہے۔ روس اور ایران اور پھر روس اور عثمانی ترکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں کے تحت انیسیویں صدی ہی سے ہزاروں آرمینیائی باشندوں کو آذربائیجان میں آباد کرایا گیا۔ اس قسم کی سیاسی آباد کاریوں کا لازمی نتیجہ، نئے اور پرانے باشندوں کے درمیان معاشی کشمکش کی صورت نکلتا ہے۔ یہاں بھی یہ ہی ہوا۔
آرمینیا کی ریاست، جدید ریاستوں میں تو اس قدر پرانی نہیں سمجھی جا سکتی لیکن قدیم آرمینی ریاست دنیا کی قدیم ترین ریاستوں اور آرمینیائی قوم قدیم ترین اقوام میں ضرور شمار کی جا سکتی ہے۔ قدیم مادر وطن کا تصور اور اس تصور کو جدید معاشی اور سیاسی صورتحال میں کس طرح استعمال کیا جاتا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
دوسری طرف ترکی اور مسلم اکثریتی آذربائیجان ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف برادرانہ تعلقات ہیں بلکہ قدرتی وسائل کے لیے بھی ترکی اور آذربائیجان کے درمیان گہرا تعلق ہے۔
ترکی کی حالیہ خارجہ پالیسی سے صاف نظر آتا ہے کہ خطے میں ایک نیا مسلم بلاک بنے گا جو کہ ترک بلاک ہی ہو گا۔ فی الحال ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات نظر آرہے ہیں۔ اب اگر ترکی کھل کے آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہے تو ظاہر ہے اس کے ساتھ تعاون کرنے والے ممالک کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ بھی اسی طرف ہو گا۔
دوسری طرف روس اور فرانس آرمینیا کے ساتھ ہیں لیکن روس کے آذربائیجان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ شام میں کھلے ہوئے محاذ کے ساتھ اگر ان دونوں ممالک کے درمیان یہ تنازعہ زور پکڑتا ہے تو حالات کسی بڑی جنگ کی طرف بھی جا سکتے ہیں ۔
بغور دیکھا جائے تو عالمی جنگ اول اور دوئم میں جو معاہدے کیے گئے اور معاملات کو جس طرح الجھا کر چھوڑا گیا، اس کے بعد دیرپا عالمی امن ممکن نہیں۔
دنیا کی سیاست میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں، یہ جنگ ان تبدیلیوں کو نہ صرف تیز کر سکتی ہے بلکہ ترکی کے اندر بھی خاصے انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔
آرمینیا نے ترکی کے اس جنگ میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ترکی پر شام سے لڑاکا گروہوں کو ناگورنو قرہباخ میں منتقل کر کے اس تنازعے کو بھڑکانے کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے۔
جنگوں میں سب ہوا کرتا ہے۔ یہاں بھی ہو رہا ہو گا اور آگے بھی ہو گا لیکن یہاں معاملہ بری طرح الجھا ہوا ہے۔
ترکی امریکی حلیف اور نیٹو کا ممبر ہے لیکن سنہ 2019 میں امریکہ نے بھی آرمینیائی نسل کشی کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ نکتہ ترکی کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے اور جو ممالک اس نسل کشی پر آرمینی مؤقف کی حمایت کرتے ہیں، ترکی انھیں سفارتی طور پر ناگواری کا تاثر دے چکا ہے۔
لیکن ساتھ کے ساتھ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ آذربائیجان، افغانستان اور عراق کی جنگ میں امریکہ کا حلیف رہا۔ خیر امریکہ کا قومی مفاد اور خارجہ پالیسی افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی تیزی سے بدلے ہیں۔ اسی بدلی ہوئی خارجہ پالیسی کے اثرات ،خطے کی سیاست پر پڑ رہے ہیں اور نئے تعلقات، بنتے ،پرانے تعلقات ٹوٹتے نظر آ رہے ہیں۔
ایران اور روس کا جھکاو، آرمینیا کی طرف ہے لیکن ایران اور امریکی تعلقات نہایت خراب ہیں۔ گویا آرمینیا کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے آپس کے تعلقات کچھ زیادہ قابل رشک نہیں ہیں۔
دور جدید کی بہت سی جنگوں کی طرح کیا یہاں بھی کسی اور ملک کی پراکسی لڑی جائے گی؟ آنے والا وقت بتائے گا کہ کس جنگ کا چھوٹا ہوا تیر، کہاں پیوست تھا اور اس کا زہر کہاں تک پھیل گیا ہے لیکن اتنا صاف نظر آرہا ہے کہ یہ جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں