نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر میر حاصل خان بزنجو انتقال کر گئے

نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر میر حاصل خان بزنجو انتقال کر گئے

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سینئر سیاست دان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر میر حاصل خان بزنجو انتقال کر گئے ہیں۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔
نیشنل پارٹی کے ترجمان جان بلیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی کے نجی ہسپتال میں گذشتہ روز میر حاصل کی کیمیو تھراپی کی گئی تھی، جمعرات کی صبح دوبارہ طبیعت خراب ہوئی اور وہ شام کو انتقال کر گئے۔
ان کی میت کراچی سے ان کے آبائی علاقے نال منتقل کی جائے گی جہاں جمعے کی شام پانچ بجے نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

حاصل بزنجو کون تھے؟
میر حاصل خان بزنجو کا تعلق پاکستان کے صوبے بلوچستان سے تھا۔ وہ سنہ 1991 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بطور آزاد امیدوار شامل ہوئے تھے۔
سنہ 1997 میں باقاعدہ طور پر بلوچستان نیشنل پارٹی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ سنہ 1998 میں انھوں نے بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی جو بلوچستان نیشنل پارٹی سے ہی نکلی ہوئی ایک جماعت تھی۔ تاہم 2003 میں نیشنل پارٹی بنی جس میں حاصل بزنجو نے بھی شمولیت اختیار کر لی۔
جمہوریت کے لیے اکثر آواز اٹھانے والے حاصل بزنجو نے 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن 2009 میں سینیٹ کے انتخاب میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔
حاصل بزنجو وفاق میں مسلم لیگ نواز کے حامی اور مضبوط اتحادی رہے ہیں۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں ان کی جماعت نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد کیا۔ جبکہ 2014 میں نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہونے کے بعد حاصل بزنجو کو 2015 میں بندرگاہ اور شپنگ کی وزارت ملی تھی۔
انھوں نے سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب بھی لڑا تھا، اور جب صادق سنجرانی کو بطور چیئرمین منتخب کیا گیا تھا تب حاصل بزنجو نے اسمبلی کے فلور پر اس فیصلے کی بھرپور مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ ‘ایوان سے بھی بڑی کسی طاقت نے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کیا ہے۔’
سینیٹ انتخابات کے نتائج میں ناکامی کے بعد مشترکہ اپوزیشن کے امیدوار حاصل بزنجو نے اپنی شکست پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے مرکزی انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید پر سیاسی معاملات میں مبینہ عمل دخل کے حوالے سے الزام عائد کیا تھا۔
میر حاصل بزنجو 1990 کی دہائی سے مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کے اتحادی رہے جبکہ نظریاتی طور پر وہ ترقی پسند سیاست کے وارث ہیں۔ میر حاصل بزنجو کا اس سیاسی اتحاد پر کہنا تھا کہ ‘یہ محض اتفاق ہے۔’
‘جب ہم جیتے تو نواز شریف بھی جیتے، جب وہ ہارے تو ہم بھی ہارے۔ اس لیے اپوزیشن میں بھی ان کے ساتھ رہے اور حکومت میں بھی ساتھ رہے۔ لیکن موجودہ وقت میں نواز شریف کی مسلم لیگ کافی اینٹی اسٹیبشلمنٹ موقف اختیار کرچکی ہے۔ یقیناً اس کو لبرل یا پروگریسو جماعت نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اسے کسی لبرل خانے میں داخل کرنا ہوگا۔’
میر حاصل بزنجو کے والد میر غوث بخش بزنجو تحریک بحالی جمہوریت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔ انھوں نے لیاری سے گرفتاری بھی پیش کی تھی لیکن بعد میں دونوں جماعتوں میں فاصلہ پیدا ہو گیا۔
حاصل خان بزنجو نے ایوان میں کئی بار بلوچستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ریاست نے وہاں کئی ناانصافیاں کی ہیں جس کے نتیجے میں وہاں پیدا ہونے والی شورش میں کمی نہیں آرہی ہے۔’
میر حاصل نے زمانہ طالب علمی سے سیاست کا آغاز کیا تھا، وہ کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے اور جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں ایک بار ایک گروہ کے حملے میں زخمی بھی ہوئے تھے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ پر الزام
سینیٹ انتخابات کے نتائج میں ناکامی کے بعد مشترکہ اپوزیشن کے امیدوار حاصل بزنجو نے اپنی شکست پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے مرکزی انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید پر سیاسی معاملات میں مبینہ عمل دخل کے حوالے سے الزام عائد کیا تھا۔
میر حاصل بزنجو نے پاکستانی فوج کے مرکزی انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید پر سیاسی معاملات میں مبینہ عمل دخل کے حوالے سے الزام عائد کرنے کے بعد بی بی سی اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ماضی کے ٹریک ریکارڈ کی بات کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ نے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) دیکھی، آپ نے جنرل حمید گل کو دیکھا، آپ نے اسد درانی کو دیکھا۔ اصغر خان کیس سب کے سامنے ہے۔ فیض آباد دھرنے کے جو ویڈیو کلپ سامنے آئے وہ بھی لوگوں نے دیکھے۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی کو جس طرح نکالا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے جن کمنٹس پر ٹرائل ہو رہا ہے، ان تمام کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے۔’
‘میں نے جو بات کی ہے اس کا جواب عدالت کو دوں گا اور مجھے تین عدالتوں میں بلایا گیا ہے۔ میں نے ادارے کی بات نہیں کی، سربراہ کی بات کی ہے۔ میں نے جنرل فیض کی بات کی تھی۔’

حاصل بزنجو کے انتقال پر ردعمل
حاصل بزنجو کے انتقال پر سوشل میڈیا پر صحافی، سیاست دان اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ سیاست اور انسانی حقوق کے لیے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں خراج تحسین بھی پیش کیا جا رہا ہے۔
اے این پی سربراہ اسفندیارولی خان کا میرحاصل بزنجو کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اپنے والد محترم کی طرح حاصل بزنجو بھی پاکستان میں مظلوم قومیتوں کے حقوق کے علمبردار تھے۔‘
چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے تعزیتی پیغام میں چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ’مرحوم میر حاصل خان بزنجو اہم قومی رہنما تھے جنھوں نے قومی یکجہتی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔‘
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’میر حاصل بزنجو کا انتقال میرے لیے باعثِ صدمہ ہے، پاکستان آج ایک معتدل مزاج، بہادر اور دور اندیش رہنما سے محروم ہو گیا۔‘ان کا کہنا ہے کہ میر حاصل بزنجو ’ایک عظیم آدمی کا قابلِ فخر فرزند تھے، اپنے والد کی طرح زندگی بھر جدوجہد میں رہے۔ وہ جمہوریت کے وکیل اور بلوچستان کی عوام سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف توانا آواز تھے۔‘
جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے لیے حاصل بزنجو کے کردار کو یاد رکھا جائے گا۔
صحافی منیزے جہانگیر نے ایک ’اچھے دوست اور عظیم رہنما‘ کے جانے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ وہ پہلی بار حاصل بزنجو سے تب ملیں جب ’اکبر بگٹی کا قتل ہو گیا تھا اور وہ بلوچ نوجوانوں سے اپیل کر رہے تھے کہ وہ ہتھیار نہ اٹھائیں۔ ابھی ان کی بہت ضرورت تھی۔ پاکستان نے جمہوریت کے لیے اپنے ایک اور سپاہی کو کھو دیا۔‘
بشریٰ گوہر نے اسے ایک پریشان کن خبر قرار دیتے ہوئے اسے یہ ’ایک ناقابلِ تلافی نقصان‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔
سید جلال نامی صارف نے ٹوئٹر پیغام میں حاصل بزنجو کو مخاطب کر کے لکھا ’پیارے حاصل بزنجو آپ نے تمام عمر محروموں کے لیے آواز اٹھائی اور زندگی کے آخری دنوں میں تمام تر دباؤ کے باوجود آپ نے اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی۔ آپ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ہمیں آپ پر فخر ہے اللّٰہ پاک آپکی مغفرت فرمائے۔‘


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں