توہین رسالت کے ملزم کو پشاور میں جج کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا

توہین رسالت کے ملزم کو پشاور میں جج کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں توہین رسالت کے مقدمے میں ملزم کو عدالت میں جج کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ بدھ صبح سیشن جج شوکت علی کی عدالت میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق ملزم طاہر احمد نسیم کو عدالت میں مقدمے کی سماعت کے لیے لے جایا گیا تھا جہاں ایک شخص عدالت میں داخل ہوا اور ان پر فائرنگ کر دی۔
پولیس کے مطابق حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پشاور کے تھانہ شرقی میں موجود پولیس اہلکاروں نے بی بی سی اردو کے عزیز اللہ خان کو بتایا ہے کہ ملزم طاہر احمد نسیم پشاور کے رہائشی تھے اور گذشتہ کچھ عرصے سے توہین رسالت کے ایک مقدمے میں جیل میں تھے۔
پولیس کے مطابق جب طاہر احمد کو جیل سے عدالت میں پیش کرنے کے لیے لایا گیا تو وہاں موجود لوگوں کے مطابق اس دوران ایک شخص آیا اور طاہر احمد سے بحث کی جس کے بعد اُس شخص نے کمرۂ عدالت میں طاہر احمد پر فائرنگ کر دی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس پشاور منصور امان نے بی بی سی کو بتایا اس واقعہ کے بارے میں جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم جے آئی ٹی قائم کر دی گئی ہے جس میں ماہر اہلکار شامل ہیں تاکہ اس واقعہ کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔
انھوں نے بتایا کہ حملہ آور کا نام فیصل ہے اور اس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کے مطابق اس بارے میں تفتیشی افسر پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے پولیس نے حملہ آور کا نام خالد بتایا تھا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ حملہ آور اپنا نام صحیح نہیں بتا رہا تھا۔
یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ توہین رسالت کے ملزم طاہر احمد نسیم کے پاس امریکی شہریت تھی۔ اس بارے میں ایس ایس پی آپریشن منصور امان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں بھی ایسی اطلاع ملی ہے اور وہ اس بارے میں متعلقہ حکام سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق طاہر احمد نسیم کے خلاف 25 اپریل 2018 کو تھانہ سربند میں تعزیرِات پاکستان کی دفعات کے تحت توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
طاہر احمد کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق تھانہ سربند کو نوشہرہ کے رہائشی اور اسلام آباد کے ایک مدرسے میں زیرِ تعلیم طالبعلم کی جانب سے درخواست ملی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ طاہر احمد نسیم توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے اور اس بارے میں یو ایس بی میں تفصیلات بھی فراہم کی گئی تھیں۔
پولیس کو دی گئی تحریری درخواست میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ طالبعلم کی طاہر احمد کے ساتھ بات چیت فیس بک پر شروع ہوئی اور پھر ان کی ملاقات پشاور میں ہوئی جہاں طاہر احمد نے ایسی باتیں کی جو توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں۔
اس واقعے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گردش کرنے لگیں کہ ہلاک ہونے والے شخص کا تعلق احمدیہ جماعت سے تھا تاہم جماعتِ احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے ایک بیان میں اس دعوے کو رد کیا ہے۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ شخص ایک احمدی گھرانے میں پیدا ضرور ہوا تھا تاہم اس نے کئی برس پہلے اس فرقے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ان کا جماعتِ احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں