آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم، مسجد میں بدلنے کا صدارتی حکم نامہ جاری

آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم، مسجد میں بدلنے کا صدارتی حکم نامہ جاری

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے استنبول کی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔
ترکی کے صدر کی طرف سے یہ صدارتی حکم نامہ جمعے کو ہی ترکی کے ایک عدالت کے اس فیصلے کے بعد جاری کیا گیا ہے جس میں آیا صوفیہ کی عمارت کی میوزیم کی حثییت کو ختم کر دیا گیا تھا۔
یہ عمارت جو ڈیڑھ ہزار سال پہلے ایک کلیسیا کے طور پر تعمیر کی گئی تھی، اس کی حیثیت کو بدلنے کا فیصلہ تنازع کا باعث رہا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں اس عمارت کو کلیسیا سے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
جولائی کے شروع میں ترکی میں کاؤنسل آف سٹیٹ نے استنبول میں موجود آیا صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے سے متعلق فیصلہ مؤخر کیا تھا جو جمعے کو سنایا گیا جس کی وجہ سے اس صدارتی فیصلے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
اس عمارت کو اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو عالمی ورثہ قرار دے چکا ہے۔ یونیسکو نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ اس کی حیثیت تبدیل نہ کرے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اس عمارت کو مسجد بنانے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
یہ عمارت چھٹی صدی میں بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول کے دور میں بنائی گئی تھی اور تقریباً ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ نے جب 1453 میں اس شہر کو فتح کیا تو اسے ایک مسجد بنا دیا گیا تاہم بعد میں 1930 کی دہائی میں اسے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

عدالت نے فیصلے میں کیا کہا؟
جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک نے 1934 میں آیا صوفیہ کو میوزیم بنانے کی منظوری دی تھی اور اس وقت سے اسے سیکولرازم کی ایک نشانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے کھلی ہے۔
لیکن ترکی کی سب سے اعلیٰ انتظامی عدالت، کونسل آف سٹیٹ نے جمعے کو اپنے فیصلے میں لکھا ‘ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تصفیے کی دستاویز میں اسے مسجد کے لیے مختص کیا گیا لہذا قانونی طور پر اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے’1934 کا کابینہ کا فیصلہ جس میں اس عمارت کے مسجد کے کردار کو ختم کر کے میوزیم میں تبدیل کیا گیا وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔‘

فیصلے پر ردعمل اور ترک حکومت کا موقف
روس کی خبررساں ایجنسی تاس کے مطابق روس کے آرتھوڈاکس چرچ نے ترکی کی عدالت کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آیا صوفیہ کے بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے ان کے تحفظات کو اہمیت نہیں دی ہے۔
روس کے آرتھوڈاکس چرچ نے کہا کہ اس فیصلے سےاختلافات میں مزید اضافہ ہو گا۔
ترکی کے نوبیل انعام یافتہ مصنف اورہان پامک نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج لاکھوں سیکیولر ترک اس فیصلے پر رو رہے ہوں گے لیکن ان کی آواز کوئی نہیں سنے گا۔‘
البتہ ترکی نے ان دعوؤں کی نفی کی ہے کہ عدالتی فیصلے کی وجہ سے آیا صوفیہ دوسرے مذاہب کے لیے بند ہو جائے گی۔
ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کالن نے کہا ‘آیا صوفیہ کو عبادت کے لیے کھولنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مقامی یا غیر ملکی سیاحوں کے لیے بند ہو جائے گی۔‘
گذشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر اردوغان نے اس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا۔
ترکی میں قدامت پسند مسلمان کئی برسوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس عمارت کو ایک مسجد بنایا جائے۔ تاہم حزبِ مخالف میں موجود سیکیولر سیاسی قوتوں نے اس اقدام کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ اس تجویز پر بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کی گئی اور دنیا بھر کے مذہبی اور سیاسی رہنمائوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔
مشرقی آرتھوڈاکس چرچ کے سربراہ نے اس کی مخالفت کی تھی۔ یونان نے بھی اس اقدام کے خلاف بات کی تھی جہاں لاکھوں آورتھوڈوکس مسیحی رہتے ہیں۔
یونان میں وزیر برائے ثقافت نے ترکی پر الزام لگایا تھا کہ وہ قوم پرستی اور مذہبی جذبات کو جنونی حد تک بڑھاوا دے رہا ہے اور ان کا اصرار تھا کہ یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کو تنظیم کی اپنی کمیٹی کی منظوری کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
ادھر یونیسکو کے ڈپنی ڈائریکٹر ارنیسٹو رامیریز نے بھی اس بات سے اتفاق کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ یونیسکو نے ترکی کو اس سلسلے میں خط لکھا ہے تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

آیا صوفیہ کی تاریخ
یہ معروف عمارت استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔
بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول نے اس کی تعمیر کا حکم سنہ 532 میں دیا تھا جب اس شہر کا نام قسطنطنیہ تھا۔ یہ بیزنٹائن سلطنت (جسے مشرقی رومی سلطنت بھی کہا جاتا ہے) کا دارالحکومت بھی تھا۔ ماہرین بحیرہ روم کے پار سے اس عمارت کی تعمیر کے لیے اشیا لائے تھے۔
سنہ 537 میں جب یہ عمارت مکمل ہوئی تو یہ آورتھوڈوکس چرچ کے سربراہ کا مقام بن گئی۔ اہم ترین بازنطینی تقریبات جیسے کہ تاج پوشی اس عمارت میں ہونے لگیں۔
تقریباً نو سو سال تک یہ عمارت آورتھوڈوکس چرچ کا گھر رہی۔ بیچ میں 13ویں صدی میں یہ کچھ عرصے کے لیے کیتھولک چرچ کے زیرِ انتظام بھی رہی جب یورپی حملہ آوروں نے قسطنطنیہ کا کنٹرول سنبھال کر چوتھی صلیبی جنگ میں شہر میں لوٹ مار کی۔
تاہم 1453 میں سلطنتِ عثمانیہ نے سلطان محمد دوئم کے دور میں قسطنطنیہ پر قبضہ کیا، شہر کا نام تبدیل کر کے استنبول رکھا اور بازنطینی سطلنت کا خاتمہ کر دیا۔
اس عمارت میں داخل ہوتے وقت سلطان محمد دوئم کا اصرار تھا کہ اس کی تعمیرِ نو کی جائے اور اسے ایک مسجد بنایا جائے۔ انھوں نے اس میں جمعے کی نماز بھی پڑھی۔
سلطنتِ عثمانیہ کے معماروں نے آورتھوڈوکس نشانیاں مٹا دیں اور عمارت کے ساتھ منار کھڑے کر دیے۔ 1616 میں استنبول کی معروف بلو موسق کی تعمیر تک آیا صوفیہ ہی شہر کی مرکزی مسجد تھی۔
918 میں سلطنتِ عثمانیہ کو پہلی جنگِ عظیم میں شکست ہو گئی۔ ترکی میں قوم پرست سیاسی قوتوں نے پروان چڑھی اور اس سلطنت راکھ میں سے جدید ترکی نے جنم لیا۔
مصطفیٰ کمال اتاترک نے عمارت کو ایک میوزیم بنانے کا حکم دیا اور 1935 میں اسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ یہ ترکی کی اہم ترین سیاحتی عمارتوں میں سے ایک ہے۔

اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟
اس عمارت کی 1500 سالہ تاریخ کی وجہ سے ترکی کے اندر اور باہر کئی لوگوں کے لیے مذہبی، روحانی اور سیاسی عقیدت رکھتی ہے۔
قدامت پسند مسلمانوں کا مطالبہ رہا ہے کہ اسے واپس ایک مسجد بنایا جائے اور اس سلسلے میں انھوں نے مظاہرے بھی کیے تاہم ترکی کا 1934 کا ایک قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
صدر اردوغان نے اس مطالبے کی تائید کی تھی۔ انھوں نے اسے ایک میوزیم بنائے جانے کو ایک غلطی قرار دیا تھا اور مشیران کو کہا تھا کہ وہ اسے واپس مسجد بنانے کے طریقے نکالیں۔
ادھر مشرقی آورتھوڈوکس چرچ کی بنیاد ابھی بھی استنبول میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی سے لاکھوں مسیحی مایوس ہوں گے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ عمارت کے درجے میں تبدیلی سے اس کی مختلف مذاہب کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت میں کمی آئے گی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں