مشہور حنفی فقیہ علامہ بن نجیم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ”الاشتباہ و النظائر“ میں -جو افتاء کے نصاب کا بھی جزو ہے- نکاح کے انعقاد کے سلسلہ میں شریعت نے جو سہولتیں اور آسانیاں رکھی ہیں، بالخصوص فقہ حنفی میں اس بارے میں جو آسانیاں ہیں، ان کو بیان کیا ہے، جو درج ذیل ہیں:
۱: نکاح کا انعقاد لڑکا و لڑکی کے باہم دیکھنے پر موقوف نہیں رکھا گیا، اور نہ ہی اس میں ”خیار رؤیت“ مشروع کیا گیا؛ کیونکہ لوگوں کی غیرت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ نکاح کا پیغام دینے والوں کو اپنی بیٹیاں اور بہنیں سامانِ تجارت کی طرح دکھائیں، یا نکاح کرنے والے نکاح کے بعد ان کو دیکھ کر نکاح رد کردیں، البتہ خرید و فروخت کے معاملے میں بِن دیکھے سامان خریدنے کی صورت میں خریدار کو حق خیار رؤیت حاصل ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ سامان دیکھنے کے بعد بلا کسی جواز کے خرید و فروخت کا معاملہ ختم کیا جاسکتا ہے۔
۲: عقد نکاح صیغہ امر (خطاب) سے بھی منعقد ہوجاتا ہے، مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے سے اس کی بیٹٰ کے بارے میں کہے ”اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردو“ (یہ صیغہ خطاب ہے)، وہ شخص کہے: ”میں نے اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کردیا“، تو محض ان الفاظ کے کہنے سے نکاح منعقد ہوجائے گا، جس کی وجہ یہ ہے کہ: اگر ان الفاظ کے کہنے کے بعد بھی نکاح منعقد نہ ہو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شوہر کو یہ حق ہو کہ وہ لڑکی کے ولی کے مذکورہ الفاظ کہنے کے بعد بھی نکاح کو قبول نہ کرے، اور اگر اس نے اپنا یہ حق استعمال کیا تو لڑکی اور اس کے اہل خانہ کے لئے یہ بات باعث عار ہوگی؛ کیوں کہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ فلاں شخص نے اپنی لڑکی کے نکاح کی پیشکش کی تھی، مگر اس کو رد کردیا گیا، اور اس سے کہیں اور بھی لڑکی کے نکاح میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے، مگر خرید و فروخت میں سامان واپس کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی، اس لئے خرید و فروخت کا معاملہ اس طرح منعقد نہیں ہوتا۔
۳: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں عاقلہ بالغہ لڑکی خود نکاح کرسکتی ہے، اور وہ نکاح منعقد بھی ہوجائیگا، ولی کی اجازت اور موجودگی ضروری نہیں، بشرطے کہ کفو اور مہر مثل کا لحاظ رکھا جائے، جبکہ دیگر فقہاء کے یہاں ولی کی اجازت و منشاء اور اس کی موجودگی کے بغیر لڑکی کا نکاح نہیں ہوتا۔
۴: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک میں نکاح کے گواہان کا عادل و ثقہ ہونا بھی شرط نہیں، فاسق و فاجر گوایان کی موجودگی میں بھی نکاح منعقد ہوجائے گا، اور دیگر فقہا کے یہاں گواہان کا عادل و ثقہ ہونا لازم ہے۔
۵: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کے مطابق نکاح میں اگر کوئی فاسد شرط لگادی جائے، مثلا یہ کہ شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا و غیرہ، تب بھی نکاح منعقد ہوجائے گا، جبکہ بیوع و معاملات میں فاسد شرط لگادینے کی وجہ سے خود امام صاحب اس پورے معاملہ کو فاسد قرار دیتے ہیں۔
۶: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب میں نکاح کے انعقاد کے لئے خاص لفظ نکاح یا تزویج لازم نہیں، بلکہ ہر اس لفظ سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، جو فی الحال اپنی ذات کا مالک بنادینے پر دلالت کرتا ہو، مثلاً: لفظ بیع، ہبہ، صدقہ، عطیہ اور تملیک و غیرہ، بشرطیکہ نکاح کی نیت ہو، یا اس پر کوئی قرینہ پایا جائے، اور گواہان بھی سمجھ رہے ہوں کہ نکاح ہی ہو رہا ہے، جبکہ دیگر ائمہ کے یہاں صرف لفظ نکاح یا لفظ تزویج سے ہی نکاح منعقد ہوسکتا ہے۔
۷: عاقدین کا اگر دوسرا یا تیسرا نکاح ہو رہا ہو، اور خود ان کی اولادیں ان کے نکاح کی گواہ ہوجائیں، تب بھی نکاح منعقد ہوجائے گا، جبکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ عاقدین کی اولاد کی گواہی سے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
۸: امام صاحب رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق اگر گواہ اونگھ رہے ہوں یا نشہ میں مدہوش ہوں، تب بھی نکاح منعقد ہوجائے گا، بشرطیکہ انہیں نکاح ہونے کا شعور و احساس ہو۔
۹: امام صاحب کے مذہب کے مطابق اگر لڑکی ایجاب و قبول کے الفاظ خود کہے، تب بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے، جبکہ دیگر ائمہ کے یہاں لڑکی خود نکاح نہیں کرسکتی، اس کا ولی ہی اس کا نکاح کریگا۔
10: امام صاحب نکاح کے لئے عورتوں کی شہادت و گواہی کافی قرار دیتے ہیں، لہذا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں بھی نکاح منعقد ہوجائے گا، جبکہ دیگر ائمہ کے یہاں نکاح کے گواہان کا مرد ہونا لازم ہے، کم از کم دو مرد ہوں تب ہی نکاح منعقد ہوگا۔
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے شریعت۔بالخصوص فقہ حنفی۔ میں نکاح کی ان تیسیرات اور آسانیوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ: ”نکاح میں یہ سب تیسیرات و تخفیفات اس لئے ہیں تا کہ نکاح کا انعقاد آسان سے آسان تر ہو، اور لوگ زنا اور اس پر مرتب ہونے والی دنیوی و اخروی سزا اور رسوائی سے بچ سکیں“، نیز انہوں نے لکھا ہے کہ: ”فقہ حنفی میں نکاح کی اِن آسانیوں کو دیکھ کر کسی نے کہا ہے: عجبت لحنفی کیف یزنی“ یعنی مجھے حنفی مسلک پر چلنے والے شخص پر تعجب ہے کہ وہ (اپنے مذہب میں نکاح کے انعقاد کے اتنا آسان ہونے کے باوجود) زنا کیوں کرتا ہے۔ (الاشباہ و النظائر/ ص132)
شرعی قوانین کے رو سے نکاح کے انعقاد و تشکیل کو کس قدر آسان کیا گیا ہے اور کیوں آسان کیا گیا ہے وہ اس تفصیل سے بخوبی واضح ہے، اس طرح کے اور بھی بہت سے قوانین و مسائل ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ نکاح کا انعقاد آسان سے آسان تر ہو مثلاً یہ کہ ”مہر“ کو نکاح کا لازمی جز بنانے کے باوجود نکاح کے انعقاد کو اس پر موقوف نہیں رکھا گیا، چنانچہ اگر مہر کی نفی کے ساتھ نکاح ہو، تب بھی نکاح ہوجاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ایسی صورت میں ”اقل مہر“ پر بھی دینا لازمی ہے، اسی طرح اگر مذاق میں نکاح کا ایجاب و قبول ہوجائے اور گواہ موجود ہوں، تب بھی نکاح انجام پاجاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے: ثلاث جدھنَّ جد و ھزلُھُنَّ جد النکاح و الطلاق و العتاق۔ (کنزالعمال، رقم 27787) یعنی تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کی حقیقت بھی حقیقت ہے اور ان کا مذاق بھی حقیقت ہے اور وہ نکاح، طلاق، اور عتاق ہیں۔
نکاح کا جو تصور شریعت نے پیش کیا ہے اور اس بارے میں جو تعلیمات و ہدایات دی ہیں ان کی رو سے لڑکے و لڑکی کا انتخاب تو ایسا مرحلہ ہے، جو سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے لئے مختلف لوگوں کی طرف سے نکاح کے پیغام بھیجے گئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہ فرمائے، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیغام آیا تو آپ نے اس کو قبول کرلیا۔ (طبقات ابن سعد)۔
آپ اپنے اصحاب کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے کہ دیکھ بھال کے نکاح کیا کریں، اور یہ بھی فرمایا کہ: لڑکا اور لڑکی کے نکاح میں جو امور غور طلب ہیں ان میں سب سے اہم دینداری ہے۔(مشکوۃ، ص: 267) اور شریعت باوجودیکہ غیرمحارم کو دیکھنے کے بارے میں بڑی سخت ہے مگر نکاح کے لئے اس کی اجازت دی گئی ہے۔ (الاشباہ و النظائر، ص: 132)
فقہاء کرام نے یہاں تک تحریر کیا ہے کہ لڑکے سے زیادہ لڑکی کو اس کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ لڑکے کے لئے نکاح کے بعد طلاق دینے، یا دوسرے نکاح کا راستہ کھلا ہوا ہے، جبکہ لڑکی کے لئے یہ دونوں راستے مسدود ہیں۔ (شامی ۵/235)، نیز لڑکی کے نکاح کے لئے کفؤ کی رعایت کا حکم بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔
لیکن لڑکا و لڑکی کے انتخاب کے بعد نکاح کے انعقاد اور اس کی انجام دہی ایسا امر نہیں کہ جو غور و فکر کا متقاضی ہو، یا اس کی انجام دہی بہت اہتمام و انتظام پر موقوف ہو، آپ علیہ السلام نے امت میں سب سے زیادہ نکاح کئے، مگر ایسے سادہ اور ہلکے پھلکے طریقہ سے کئے کہ اس زمانے میں اس کا تصور بھی مشکل ہے، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے جنگ سے واپسی کے دوران خیبر و مدینہ کے درمیان ایک مقام پر نکاح کیا۔ (مشکوۃ ص: 278)، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے عمرہ کے قضاء کے موقع پر حالت احرام میں نکاح کیا (الاکمال فی اسماء الرجال)، عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے بڑا ولیمہ کیا وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے موقع پر کیا، اس میں آپ نے ایک بکری ذبح کی اور روٹی و گوشت لوگوں کو کھلایا۔ (مشکوۃ، ص: 278) حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا، اس میں آپ نے حیس (کجھور سے تیار شدہ ایک حلوہ) ولیمہ میں کھلایا، (مشکوۃ، ص: 278) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا تو محض دو مد جَو سے ولیمہ فرمایا۔ (مشکوۃ، ص: 278)۔
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح سادگی کے ساتھ بلا کسی اہتمام اور التزام کے نکاح کرلیا کرتے تھے، حتی کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اطلاع کرنے یا دعوت دینے کا اہتمام نہیں کرتے تھے، عبدالرحمن بن عوف۔جو مالدار صحابہ میں شمار ہیں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو آپ نے ان کے کپڑوں پر رنگ دیکھا، فرمایا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے گٹھلی کے بقدر سونے کے عوض نکاح کرلیا ہے، آپ نے ان کو دعا دی اور فرمایا کہ ولیمہ بھی کرلینا۔ (مشکوۃ، ص: 278)۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ سے واپس تشریف لا رہے تھے، مدینہ کے قریب پہنچ کر کچھ جلدی کرنے لگے، جس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس فرما لیا، اور اس کی وجہ دریافت کی، انہوں نے کہا کہ میں نے شادی کرلی ہے، اس لئے تھوڑی جلدی ہے، آپ نے دریافت کیا کہ کس لڑکی سے شادی کی؟ کنواری سے یا شادی شدہ سے؟ کہا کہ شادی شدہ سے، کیونکہ میری کئی بہنیں ہیں، اور مجھے ایسی عورت درکار تھی، جو ان کی دیکھ بھال بھی کرسکے۔ (مشکوۃ، ص: 264)
نبوی معاشرہ میں کس قدر سادگی اور ہلکے پھلکے طریقہ سے نکاح و شادی ہوتی تھی یہ اس کی ایک جھلک ہے، اس معاشرہ میں نکاح کا انعقاد نہ کوئی قابل مشورہ امر تھا اور نہ اس کی تیاری کے لئے کوئی حاجت سمجھی جاتی تھی اور نہ آج کی طرح لمبے چوڑے انتظامات اور اخراجات کئے جاتے تھے، اس کے برخلاف اپنے معاشرے کے نکاح اور شادیوں کے حال پر غور کیا جائے، جس تناسب سے نکاح کو آسان کیا گیا ہے اس سے کہیں زیادہ تناسب کے ساتھ نکاح کو رسومات و خرافات اور غیرضروری التزامات میں جگڑ دیا گیا ہے، اور نکاح و شادی کے موقع پر وہ ہنگامہ آرائیاں ہوتی ہیں کہ۔حضرت اقدس تھانوی کے الفاظ میں۔ مگنی کے موقع پر ”قیامت صغریٰ“ کا اور نکاح و شادی کے موقع پر ”قیامت کبریٰ“ کا منظر ہوتا ہے۔
موجودہ معاشرے میں نکاح و شادی میں مختلف عنوانات سے پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے، اور بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاتا ہے، منکرات کا ارتکاب نہ ہو مگر مباحات میں خوب توسع ہوتا ہے، یہ مہنگی شادیاں شرعی مزاج و مذاق کے خلاف ہونے کے ساتھ مسلمانوں کی اقتصادی حالت کی کمزوری کا بھی باعث ہیں، جس معیار اور درجہ کی شادیوں کا معمول ہے اس میں اچھا خاصا مال و دولت رکھنے والوں کے بھی کَس بَل ڈھیلے ہوجاتے ہیں، اور متوسط درجہ کا شخص خواہی نہ خواہی قرض میں ڈوب جاتا ہے، لہذا شادیوں میں کم سے کم صرفہ ہو، یہ ذاتی مفاد بھی ہے اور معاشرہ کی ضرورت بھی، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایسی ہی شادی باعث برکت اور رحمت بھی ہے: ان أعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ۔ (مشکوۃ، ص: 268) (سب سے زیادہ بابرکت شادی وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو)۔
آپ کی رائے