شہید کون، دہشت گرد کون، فیصلہ امریکا کا

شہید کون، دہشت گرد کون، فیصلہ امریکا کا

وزیراعظم عمران خان نے اسامہ بن لادن کو شہید کہا تو ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کچھ رہنمائوں کیساتھ ساتھ ساتھ میڈیا کے کئی افراد کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی ہو۔
تحریک انصاف کا ایک طبقہ بھی پریشان دکھائی دیا اور صفائی پیش کرتا رہا کہ خان صاحب کی زبان پھسل گئی۔ اگرچہ کسی نے یہ الفاظ تو نہیں کہے لیکن محسوس یہ ہوا جیسے یہ سب لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ عمران خان کی ہمت کیسے ہوئی کہ ایک شخص جس کو امریکا نے دہشت گرد قرار دے دیا ہو۔
اُسے شہید پکارا جائے اور ایسا کہنے والا پاکستان کا وزیراعظم کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری سیاست اور ہمارے میڈیا کا جو مائنڈ سیٹ ہے وہ تو واضح ہے، یعنی کون شہید ہے کون دہشت گرد اس کا فیصلہ تو صرف امریکا نے کرنا ہے، جس کے ہاتھ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جس نے ایک ایک کرکے کئی مسلمان ممالک کو بدامنی اور خون خرابہ کی طرف دھکیلا۔
نائن الیون کے بعد ہم نے ثابت کیا کہ ہم تو وہ کہیں گے اور وہ کریں گے جو امریکا کہتا ہے اور جو وہ چاہتا ہے۔ اسلام کو بھی ہم نے امریکا کی نظر سے ہی دیکھنا ہے۔
جہاد کی تو امریکا کی نظر میں کوئی گنجائش ہی نہیں اور اس لیے ہم بھی جہاد کی بات نہیں کرتے۔ ہم بات کریں گے تو روشن خیالی کی، موڈریٹ اسلام کی کیونکہ امریکا ہم سے یہی سننا چاہتا ہے۔ عمران خان سے ہزار اختلاف لیکن اُن میں یہ خوبی ہے کہ وہ جو اسلام کے بارے میں صحیح سمجھتے ہیں کھل کر اُس پر بات کرتے ہیں۔
اُنہوں نے اسامہ بن لادن کی شہادت کے حوالے سے بات کر کے امریکا کی زبان بولنے سے انکار کیا جو یقیناً ایک بہت بڑا ’’جرم‘‘ ہے۔ عمران خان کے اس ’’جرم‘‘ پر سیخ پا ہونے والوں نے اسامہ بن لادن کو پاکستان میں دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں مارے جانے والے ہزاروں افراد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسامہ اور تحریک طالبان پاکستان ایک ہی سکے کے دو رخ تھے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم امریکا کی زبان یعنی اُس کے پروپیگنڈے پر تو یقین کریں گے لیکن اگر امریکا کی طرف سے ہی کوئی ایسی بات سامنے آئے جو اُس پروپیگنڈے کے برعکس ہو تو اُس کا نہ تو حوالہ دیں گے اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت۔ ایبٹ آباد واقعہ کے کوئی سال بعد 3مئی 2012ء کو ڈان اخبار کے صفحہ اول پر ایک خبر شائع ہوئی، جس کی سرخی ’’Al Qaeda’s relations with Pakistan were fraught with difficulties‘‘ تھی۔
یہ خبر ڈان کے واشنگٹن سے سینئر رپورٹر انور اقبال صاحب کی تھی جس میں ایبٹ آباد آپریشن کے دوران قبضہ میں لی جانے والی اسامہ بن لادن کی دستاویزات کا حوالہ دیا گیا تھا۔ خبر کے مطابق ان دستاویزات کو امریکی فوج نے جاری کیا۔
اس خبر میں لکھا تھا کہ دستاویزات کے مطابق القاعدہ کے تحریک طالبان پاکستان سے شدید اختلافات تھے اور ان اختلافات کی وجہ تحریک طالبان پاکستان کا ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں شامل ہونا تھا۔ اس خبر میں بتایا گیا کہ القاعدہ کے دو رہنمائوں نے اُس وقت کے تحریک طالبان کے رہنما حکیم اللہ محسود کو خط لکھ کر اپنی خفگی کا اظہار بھی کیا اور ٹی ٹی پی کے نظریہ، طریقہ کار اور رویہ کو ناپسندیدہ قرار دیا۔
اس خط میں ٹی ٹی پی کو یہ تنبیہ بھی کی گئی تھی کہ اگر تحریک طالبان پاکستان نے اپنا رویہ نہ بدلا جو اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے، تو القاعدہ اس پر کوئی عوامی اقدام کرے گی۔
دستاویزات سے یہ بھی ظاہر ہو رہا تھا کہ اسامہ بن لادن کو 2010ء میں نیویارک اسکویئر میں ٹی ٹی پی کے فیصل شہزاد کے ناکام حملہ کرنے کی کوئی پیشگی اطلاع نہ تھی بلکہ اسامہ کو اس بات پر مایوسی ہوئی کہ فیصل شہزاد جس نے امریکی شہریت کے لیے حلف لیا تھا، نے نہ صرف اپنے عہد کی خلاف ورزی کی بلکہ جہاد کے تصور کو بھی خراب کیا۔
بظاہر اسامہ یا کسی دوسرے القاعدہ رہنما کی طرف سے لکھے گئے ایک اور خط کا حوالہ دیتے ہوئے خبر میں پاکستانی طالبان کی شہرت کے بارے میں ’’Black Reputation of Pakistani Taliban‘‘ کے الفاظ لکھے گئے۔
اس خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ ٹی ٹی پی مذہبی اور قبائلی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ مساجد اور عوامی مقامات پر حملے کرتی ہے جس میں عورتوں اور بچوں سمیت بےگناہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان دستاویزات میں ایک ازبک جنگجو کے وڈیو پیغام جس میں لال مسجد کے واقعہ کے خلاف انتقام کے طور پر پاکستان بھر کی مساجد میں بم حملے کرنے کا پیغام دیا گیا تھا، کو بھی غلط قرار دیا اور یہ کہا کہ بھلے مسجد کسی فوجی یا حکومتی علاقہ میں ہو، اُس پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔
نیز یہ کہ مساجد پر حملے اور معصوموں کا خون بہانے کا تعلق ہمیشہ بدترین افراد اور گروہوں سے رہا۔ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے لکھا گیا:
I have no doubt that what is happening to the Jihandi movement in these countries is not misfortune, but punishment by God on us because of our sins and injustices and because some of us are silent over these sins.
ترجمہ:مجھے کوئی شک نہیں کہ جو ان ممالک میں جہادی تنظیموں سے ہو رہا ہے وہ بدقسمتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے ہمارے گناہوں اور ہماری ناانصافیوں کی کیونکہ ہم میں سے کچھ ان گناہوں پر خاموشی طاری کیے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد خط میں لکھا گیا کہ ایک مجاہد کو امیر کی تقلید نہیں کرنی چاہیے، اگر امیر کا حکم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے طرف لے جانے والا ہو۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ اگر کوئی شخص چند دینار (رقم) کا مقروض ہو کر مر جائے تو اُس کی بخشش ممکن نہیں جب تک کہ اُس قرض کی ادائیگی نہ ہو جائے۔
تو ایسے میں اُس شخص کی بخشش کیسے ممکن ہے جو بہت سے معصوموں کو مار دے یا مسلمانوں کا ناانصافی سے خون بہائے۔ خط میں پاکستانی طالبان اور افغان طالبان کے رہنمائوں سے کہا گیا کہ وہ ان باتوں پر غور کریں اور قتل و غارت کو چھوڑ دیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں